لاہور (ویب ڈیسک) چونکہ میں خود ایک عظیم کالم نگار ہوں اس لئے اس عظیم غلط فہمی کے عین مطابق میں کسی اور کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں، عرفان صدیقی کو توبالکل نہیں،لیکن کیا کریں میری دانشوری گوڈوں میں سر رکھ کر اواں اواں کرتی تھی جب ہمارے سابق قائد جمہوریت نواز شریف نامور کالم نگار ایثار رانا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔عرفان صدیقی صاحب کو اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے۔ کئی بار تو ہمیں یہ دھوکا ہی ہوا کہ رانجھا کون ہے اور ہیر کون۔عرفان صدیقی اتنا نواز،نواز کر چکے کہ خود نواز شریف لگتے تھے اور ہمیں جتنا وہ نواز شریف لگتے اتنا ہی دل کو بُرا لگتے،لیکن یہ بات بھی اٹل حقیقت ہے کہ آسمانِ صحافت کے ایک روشن ستارے میں ہم جیسے ان کو پڑھ کر اپنی اُردو سیدھی کرتے ہیں، ان سے لکھنے کا اسلوب سیکھتے ہیں۔ ہمارے بزرگ ہیں۔ دِل کو تکلیف ہوئی ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھ کر۔حکومت کے ہر کام پر مراثیوں کی طرح تالیاں بجانے والے میرے ہاتھ رکھ گئے مَیں نے انہیں اپنی بغلوں میں دبا لیا۔میرا بغلیں بجانے کا موڈ ہی نہیں رہا۔ اگر ہاتھی پکڑے جا سکتے ہیں تو کبھی نہ کبھی ہم جیسے چوہوں کی بار ی بھی آ سکتی ہے۔مراثی جنگ پر گیا وہاں سے بھاگ آیا، کسی نے پوچھا کیوں بھاگ آئے، بولا: پہلی گولی چلی تو سمجھ گیا عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔سیاسی اختلافات اتنی بھونڈی شکل اختیار کر جائیں گے،سوچا نہ تھا بہرحال ہمیں اس گرفتاری سے ”کن“ ہو گئے اور مسلسل گا رہا ہوں میری توبہ توبہ، میری توبہ توبہ عرف توبہ توبہ کرا دیتی توں ظالماں، یہ سلسلہ اچھا نہیں، جمہوریت میں دانشوروں کو کرایہ داری، پراس طرح رسوا کیا جائے گا تو یہ سلسلہ نجانے کہاں جا کے ٹھہرے۔ اپنے اپنے لکھنے کا اسلوب ہے ورنہ ہم آدھے سکے کے ایک طرف کی اور آدھے دوسری طرف کی بات کرتے ہیں، سنتا سنگھ اپنے دوست عادل کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں بال بال بچ گیا۔ عادل نے اپنی بیگم کو کہا نائلہ آج میں ٹرک کے نیچے آنے لگا تھا، نائلہ نے فوراً عادل کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا خدارا ایسی باتیں نہ کریں آپ کو میری عمر بھی لگ جائے۔ سنتا سنگھ یہ دیکھا گھر پہنچا اور بولا بنتو اج میں ٹرک تھلے آن لگا ساں،بنتو بولی فٹے منہ تہاڈا ایویں نہ کتیاں وانگوں پھونکیا کرو، بوتھا بہڑا ھوئے تے بندہ گل جنگی کرے۔ عرض کیا ہے بس کہنے کا فرق ہے ورنہ سارے دانشور بات ایک کہہ رہے ہوتے۔ بھیا یہ پاکستانی سیاست ہے یہاں بُھل چُک لین دین چلتا ہے۔ ہماری مریم بی بی نے اگر غلطی سے اپنی ہی ماضی کی کارکردگی پر لعنت ملامت کا ٹویٹ کر دیا تو کون سی قیامت آ گئی۔اُن سے بُھل ہوئی اور انہوں نے پھر اسے ڈیلیٹ بھی کر دیا۔سنتا سنگھ بیٹے کی جیب سے نکلنے والے رزلٹ کارڈ کو پڑھ کر بیٹے کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا۔ لکھ لعنت تیری کارکردگی تے ڈب مرے، شرما، اتنے پیسے خرچ کئے یہ گھٹیاں رزلٹ، جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو بیٹا بولا ”ابا جی رزلٹ کارڈ تے ناں پڑھ لو ایہہ میں پرانی کتاباں وچوں تہاڈا رزلٹ کارڈ تلاش کیتا اے“ بھائی میرے ہمارے لئے تو سب برابر وہ نواز شریف ہوں یا زرداری یا عمران خان ہم نے تو اس فلم میں مرنا ہی مرنا ہے۔ میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں ۔۔ پھر حقیقت میں مارا جاؤں گا۔۔ نواز شریف حکومت کی کارکردگی پر کیا بولوں۔ bاب کون سا دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔پچھلے چالیس سال کی ورلڈ بنک آئی ایم ایف کی رپورٹس نکال لیں۔ ماشاء اللہ سب ہی ایک جیسی ہیں۔خزانہ خالی،قرضہ بھاری، صنعتیں تباہ، سو ہماری مریم بی بی نے اندازے کی غلطی سے جو کچھ کہا ان تمام گالیوں کو موجودہ حکومت کے کھاتے میں سمجھا جائے۔ وزیراعظم عمران خان امریکہ کے کامیاب دورے کے بعد واپس آ گئے ہیں، امید یہی ہے کہ وہ کچھ اچھا کر کے آئے ہوں گے،حالات یہی بتا رہے ہیں۔امریکہ نے ایف16کے پرزوں کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے۔ امید ہے کولیکشن، سپورٹ فنڈ بھی جلد بحال ہو گا۔گلاں وچوں گل نکل آؤندی اے۔ہم ہیں میلوں ٹھیلوں فلموں شلموں کے شوقین دورے سے کچھ ملے نہ ملے مجھے تو…… ملینا ٹرمپ کی اپنے کپتان کو تکنی کا چس آ گیا۔کپتان تو ایسے چھایا ہوا تھا جیسے امریکہ ہمارا مقروض ہے اور ہم نے اس کی امداد شمداد بحال کرنی ہے۔ٹرمپ سے ملاقات میں جیسے ہمارا گھبرو وزیراعظم لت اُتے لت رکھ کے بیٹھا تھا۔ لگتا تھا ابھی ٹرمپ ان کے گوڈے گٹے پکڑ لے گا۔ سچی بات ہے ماضی میں ہمارے وزرائے اعظم کی باڈی لینگوئج سے یوں لگتا تھا جیسے ہم امریکہ کے کانے ہیں۔ چودھری نے میراثی کو ڈیرے پر بلوایا،ٹانگیں دبوائیں، مٹھی چابی کرائی، لطیفے سنے، جگتیں سنیں۔ میراثی گھنٹوں تھکا ہارا گھر لوٹا تو بیوی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ وہ بولا چودھری کے ڈیرے کا کامیاب دورہ کر کے آیا ہوں، شکر ہے پہلی بار ہم نے چمپی کی نہ ٹانگیں دبائیں، لیکن ایک بات ضرور ہے مَیں ایک عرصے سے اپنے ڈونلڈ کی ٹرمپیاں دیکھ رہاہوں۔ مجھے ڈر ہے وہ ہمیں پھر پھنسا نہ لے،ہمیں بھی فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے چین سے عشق پیچا لگانا ہے یا امریکہ سے عہد و پیماں کرنے ہیں، اب ہمیں اپنے فلرٹ ہونے پر کھچ کے بریک لگانی پڑے گی۔ ہم تو پہلے ہی فواد چودھری کے فین ہیں چاہے چھت پر لگا لیں اور دیوار پر ہم نے انہیں ٹھنڈی ہوا ہی دینی ہے، کیا بات ہے ان کی،انہوں نے پوپلزئی کو بھلا دیا۔ پہلے پوپلزئی اب محکمہ موسمیات، عید کب ہو گی پھر سسپنس قائم ہو گیا،لیکن ہر بار اگر سائنس یہ تک بتا دیتی ہے کہ یہ والا چاند گرہن اب کتنے ہزار سال بعد ہو گا تو عید پر کھوتی بوڑھ تھلے کیوں کھلو جاتی ہے۔ فواد چودھری ایک ایسا رستہ بتا رہا ہے جو کم از کم ایک خاص موقع پر تمام کنفیوژن ختم کر دے گا، ضروری نہیں کہ ریٹنگ لینے کے لئے ہر بار اس کی مخالفت کی جائے، لکھ لیں جیسے فتح غریب عوام کی ہوئی، ایسے ہی کامیابی فواد کے قدم چومے گی، اور بے ہوشی بھی نہیں ہو گی، کیونکہ وہ ہمیشہ پاؤں دھو کے نئی جرابیں پہنتے ہیں،بدبو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔