کینسر کاشمار دنیا کے خطرناک اورموذی امراض میں کیاجاتاہے۔ایک ایسا ضدی مرض ہے جو علاج کے باوجود مریض کاپیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس کے زیادہ ترشکار مریض پانی جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوت مدافعت اور ادویات کے اثرات کوزائل کرکے دوبارہ مریض پرحملہ آور ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں کافی عرصہ سے یہ بحث کی جارہی ہے کہ اسپرین کینسرکے مریضوں کے لئے ایک مضبوط ڈھال کاکردار کرسکتی ہے۔سائنسدانوں کاخیال ہے کہ اس کے ذریعے کینسر کودوبارہ لاحق ہونے سے روکاجاسکتاہے۔ اس بات میں کسی حدتک صداقت ہے اس بارے میں تحقیق کاسلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔یہ تجربے لندن کے 100میڈیکل سینٹرز میں کئے جائیں گے۔ اس تجربے میں تقریباَ11ہزار مریضوں کوشامل کیاگیا ہے جو آنت،سینے ،معدے ،مثانے اور غذائی نالی کے کینسر میں مبتلاہیں اور ان کامرض پہلی سٹیج پرہے۔اس سٹڈی کوچیرٹی کینسرر یسرچ یوکے اور این آئی ایچ آرجواین ایچ ایس کامضبوطی تحقیقی ادارہ ہے اس کے تعاون سے کیا جارہا ہے۔اس تجربے میں یہ دیکھا جائے گاکہ یہ دوا کس طرح کینسر کے خلاف مئوثر کردار ادا کرتے ہوئے اس کی روک تھام کرسکتی ہے۔
تحقیق کے دوران مریضوں کوروزانہ ایک گولی اسپرین دی جائے گی۔بعدازاں محققین مریضوں کے مختلف گروپوں کے درمیان موازنہ کرکے یہ چیک کریں گے کہ اس دوانے مریضوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا اس دوا کوکینسر کے خلاف مئوثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکت اہے؟ اگر اس دوا کے بارے میں یہ ثابت ہوگیا کہ یہ کینسر کے دوبارہ لوٹنے کی راہ میں رکاوٹ پیداکرتی ہے تو سائنسدان اسے کینسر کیخلاف ایک انقلابی اقدام قراردیں گے۔ڈاکٹر فیوناریڈنگٹن جوکینسر ریسرچ یوکے سے تعلق رکھتے ہین۔ان کاکہناہے کہ یہ تجربہ کینسر کی ان اقسام کے متعلق کیاجارہاے جن کے دوبارہ لاحق ہونے کے بعد ان کاعلاج کرنا مشکل ہوجاتاہے۔اس لئے ہمیں اس دوا کے ذریعے ایک ایسا مئوثر طریقہ کارمل جائے گا جو کینسر کے خلاف اہم پیشرفت ہوگی۔اس تجربے سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں کینسر کودوبارہ پلٹنے سے روکنا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔اس سے بھی موذی مرض میں مبتلا مریضوں کوزیادہ سے زیادہ سکون اور آرام مہیا کیاجاسکتا ہے۔
دوسری طرف بعض سائنسدان یہ وارننگ بھی دے رہے ہیں کہ اسپرین ہر کسی کے لئے موزوں نہیں ہے اور اسے کسی صورت میں بھی میڈیکل ایڈوائس کے بغیر مریضوں کونہیں دینا چاہیے۔ اسے روزانہ استعمال کرنے سے صحت کے شدید مسائل کاسامنا کرناپڑسکتا ہے۔ اس کے سائیڈایفکٹس کے باعث السر، بلیڈنگ جو معدے اور دماغ کی جانب سے ہوسکتی ہے۔
پروفیسر روتھ بنگلی جواس تجربے پر تحقیقات کررہے ہیں۔ اُن کاکہنا ہے کہ اس سلسلے میں ایک دلچسپ ریسرچ یہ تجویز کرتی ہے کہ اسپرین ابتدائی سٹیج پر علاج کئے گئے کینسر کودوبارہ واپس آنے میں روک سکتی ہے لیکن اس کے بارے میں ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے جو اس تجربے کے ذریعے حاصل کے جارہے ہیں۔ اس تجربے کامقصد یہ جواب حاصل کرنا ہے کہ کیا واقعی ہی اسپرین کینسر کودوبارہ واقع ہونے سے روکتی ہے۔ اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اس سے مستقبل میں علاج کاطریقہ کارتبدیل ہوجائے گا۔ ا س کے ذریعے ہمیں ایک سستا اور سادہ طریقہ مل جائے گا۔ جس سے کینسر کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کی جاسکتی ہے۔ اسپرین کے ذریعے کینسر جیسے موذی اور خطرناک مرض کے علاج معالجے کے لئے ایک سستی اور مئوثر دوا دستیاب آنے سے مریضوں کوبھی سکھ کاسانس نصیب ہوگا۔ اسپرین کے بارے میں نئے انکشافات منظر عام پر آرہے ہیں۔ یہ ایک سستی دوائی ہے جسے کینسر کے خلاف مفید قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دل کی بیماریوں کو ٹالنے اور فالج کے خدشات کوبھی کم کرتی ہے۔