آئی۔سی۔ایس پاس کر کے ہندوستان آیا، مجھے صوبہ جات متحدہ کے ایک کوہستانی علاقے میں ایک سب ڈویژن کا چارج ملا۔ مجھے شکار کا بہت شوق تھا اور کوہستانی علاقے میں شکار کی کیا کمی، میری دلی مراد بر آئی۔ ایک پہاڑ کے دامن میں میرا بنگلہ تھا، بنگلے پر کچہری کر لیا کرتا تھا۔ اگر کوئی شکایت تھی تو یہ کہ سوسائٹی نہ تھی، اس لیے سیر و شکار اور اخبارات و رسائل سے اس کمی کو پورا کرتا تھا۔ امریکہ اور یورپ کے کئی رسالے آتے تھے، ان کے مضامین کی شگفتگی اور جدت اور خیال آرائی کے مقابلے میں ہندوستانی اخبار اور رسالے بھلا کیا جچتے، سوچتا تھا وہ دن کب آئے گا کہ ہمارے یہاں بھی ایسے شاندار رسالے نکلیں گےبہار کا موسم تھا، پھاگن کا مہینہ، میں دورے پر نکلا اور کندھوار کے تھانے کا معائنہ کر کے گجن پور کے تھانے کو چلا، کوئی اٹھارہ میل کی مسافت تھی مگر منظر نہایت سہانا، دھوپ میں کسی قدر تیزی تھی مگر ناخوشگوار نہیں، ہوا میں بھینی بھینی خوشبو تھی۔ آم کے درختوں میں بھور آ گئے تھے اور کوئل کوکنے لگی تھی۔ کندھے پر بندوق رکھ لی تھی کہ کوئی شکار مل جائے تو لیتا چلوں، کچھ اپنی حفاظت کا بھی خیال تھا ،کیونکہ ان دنوں جا بجا ڈاکے پڑ رہے تھے۔ میں نے گھوڑے کی گردن سہلائی اور کہا۔ “چلو بیٹا چلو، ڈھائی تین گھنٹے کی دوڑ ہے، شام ہوتے ہی گجن پور پہنچ جائیں گے۔” ساتھ کے ملازم پہلے ہی روانہ کر دیئے گئے تھے۔جا بجا کاشتکار کھیتوں میں کام کرتے نظر آرہے تھے۔ ربیع کی فصل تیار ہو چکی تھی، اوکھ اور خربوزے کیلیئے زمین تیار کی جا رہی تھی۔ ذرا ذرا سے مزارعے تھے، وہی باوا آدم کے زمانے کے بوسیدہ ہل، وہی افسوسناک جہالت، وہی شرمناک نیم برہنگی، اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ گورنمنٹ لاکھوں روپے زراعتی اصلاحوں پر صرف کرتی ہے، نئی نئی تحقیقاتیں اور ایجادیں ہوتی ہیں، ڈائرکٹر، انسپکٹر سب موجود اور حالت میں کوئی اصلاح، کوئی تغیر نہیں۔ مغرب میں تعلیم کا طوفانِ بے تمیزی برپا ہے، یہاں مدرسوں میں کتے لوٹتے ہیں۔ جب مدرسے پہنچ جاتا ہوں تو مدرس کو کھاٹ پر نیم غنودگی کی حالت میں لیٹے پاتا ہوں۔ بڑی دوا دوش سے دس بیس لڑکے جوڑے جاتے ہیں، جس قوم پر جمود نے اس حد تک قبضہ کر لیا ہو ،اس کامستقبل انتہا درجہ مایوس کن ہے۔ اچھے اچھے تعلیم یافتہ آدمیوں کو سلف کی یاد میں آنسو بہاتے دیکھتا ہوں، مانا کہ ایشیا کے جزائر میں آرین مبلغ روشنیوں نے مذہب کی روح پھونکی تھی، یہ بھی مان لیا کہ کسی زمانے میں آسٹریلیا بھی آرین تہذیب کا ممنون تھا لیکن اس سلف پروری سے کیا حاصل، آج تو مغرب دنیا کا مشعلِ ہدایت ہے۔ ننھا سا انگلینڈ نصف کرۂ زمین پر حاوی ہے اپنی صنعت و حرفت کی بدولت۔ بے شک مغرب نے دنیا کو ایک نیا پیغامِ عمل عطا کیا ہے اور جس قوم میں اس پیغام پر عمل کرنے کی قوت نہیں ہے اس کامستقبل تاریک ہے۔جہاں آج بھی نیم برہنہ گوشہ نشین فقیروں کی عظمت کے راگ الاپے جاتے ہیں، جہاں آج بھی شجر و حجر کی عبادت ہوتی ہے، جہاں آج بھی زندگی کے ہر ایک شعبے میں مذہب گھسا ہوا ہے اگر اس کی یہ حالت ہے تو تعجب کا مقام نہیں۔میں انہیں تصورات میں ڈوبا ہوا چلا جا رہا تھا، دفعتاً ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا جسم میں لگا تو میں نے سر اوپر اٹھایا۔ مشرق کی طرف منظر گرد آلود ہو رہا تھا، افق گرد و غبار کے پردے میں چھپ گیا تھا، آندھی کی علامت تھی۔ میں نے گھوڑے کو تیز کیا مگر لمحہ بہ لمحہ غبار کا پردہ وسیع اور بسیط ہوتا جاتا تھا، میرا راستہ بھی مشرق ہی کی جانب تھا۔ گویا میں یکہ و تنہا طوفان سے طوفان کا مقابلہ کرنے دوڑا جا رہا تھا۔ ہوا تیز ہوگئی، وہ پردۂ غبار سر پر آ پہنچا اور دفعتاً میں گرد کے سمندر میں ڈوب گیا۔ ہوا اتنی تند کہ کئی بار میں گھوڑے سے گرتے گرتے بچا۔ وہ سرسراہٹ اور گڑگڑاہٹ تھی کہ الامان، گویا فطرت نے آندھی میں طوفان کی روح ڈال دی ہے۔ دس بیس ہزار توپیں ایک ساتھ چھوٹتیں تب بھی اتنی ہولناک صدا نہ پیدا ہوتی، مارے گرد کے کچھ نہ سوجھتا تھا یہاں تک کہ راستہ بھی نظر نہ آتا تھا۔ اُف ایک قیامت تھی جس کی یاد سے آج بھی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ میں گھوڑے کی گردن سے چمٹ گیا اور اسکے بالوں میں منہ چھپا لیا۔ سنگریزے گرد کے ساتھ اڑ کر منہ پرا س طرح لگتے تھے جیسے کوئی کنکریوں کو پچکاری میں بھر کر مار رہا ہو۔ ایک عجیب دہشت مجھ پر مسلط ہوگئی۔ کسی درخت کے اکھڑنے کی آواز کانوں میں آ جاتی تو پیٹ میں میری آنتیں تک سمٹ جاتیں، کہیں کوئی درخت پہاڑ سے میرے اوپر گرے تو یہیں رہ جاؤں۔ طوفان میں ہی تو تودے بھی ٹوٹ جاتے ہیں، کوئی لڑہکتا ہوا آ جائے تو بس خاتمہ ہے، رہنے کی گنجائش نہیں۔ پہاڑی راستہ کچھ سوجھائی نہیں دیتا، ایک قدم دائیں بائیں جاؤں تو ایک ہزار فٹ گہرے کھڈے میں پہنچ جاؤں۔ عجیب ہیجان میں مبتلا تھا، کہیں شام تک طوفان جاری رہا تو موت ہی ہے۔ رات کو کوئی درندہ آ کر صفایا کر دے گا۔ دل پر بے اختیار رقت کا غلبہ ہوا، موت بھی آئی تو اس حالت میں کہ لاش کا بھی پتہ نہ چلے گا۔ افوہ کتنی زور سے بجلی چمکی ہے کہ معلوم ہوا ،ایک نیزہ سینے کے اندر گھس گیا۔دفعتاً چھن چھن کی آواز سن کر چونک پڑا، اس گڑگڑاہٹ میں بھی چھن چھن کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی جیسے کوئی سانڈنی دوڑ رہی ہو۔ سانڈنی پر کوئی سوار تو ہوگا ہی، مگر اسے راستہ کیونکہ سوج رہا ہے کہیں سانڈنی ایک قدم بھی ادھر ادھر ہو جائے تو بچہ تحت الثریٰ میں پہنچ جائے۔ کوئی زمیندار ہوگا، مجھے دیکھ کر شاید پہچانے بھی نہیں، چہرے پر منوں گرد پڑی ہوئی ہے، مگر ہے بلا کا ہمت والا۔ایک لمحہ میں چھن چھن کی آواز قریب آ گئی پھر میں نے دیکھا کہ ایک جوان عورت سر پر ایک کھانچی رکھے قدم بڑھاتی ہوئی چلی آ رہی ہے، ایک گز فاصلے سے بھی اس کاصرف دھندلا سا عکس نظر آیا۔ وہ عورت ہو کر اکیلی مردانہ وار چلی جا رہی ہے، نہ آندھی کا خوف ہے نہ ٹوٹنے والے درختوں کا اندیشہ، نہ چٹانوں کے گرنے کا غم، گویا یہ بھی کوئی روزمرہ کا معمولی واقعہ ہے۔ مجھے اپنے دل میں غیرت کا احساس کبھی اتنا شدید نہ ہوا تھا۔میں نے جیب سے رومال نکال کر منہ پونچھا اور اس سے بولا۔ “او عورت گجن پور یہاں سے کتنی دور ہے؟”میں نے پوچھا تو بلند لہجے میں مگر آواز دس گز بھی نہ پہنچی، عورت نے کوئی جواب نہ دیا، شاید اس نے مجھے دیکھا ہی نہیں۔میں نے چیخ کر پکارا۔ “او عورت، ذرا ٹھہر جا، گجن پور یہاں سے کتنی دور ہے؟”عورت رک گئی، اس نے میرے قریب آ کر مجھے دیکھ کر سر جھکا کر کہا، “کہاں اؤے؟””گجن پور کتنی دور ہے؟””چلے آؤ، آگے ہمارا گاؤں ہے اس کے بعد گجن پور ہے۔””تمھارا گاؤں کتنی دور ہے؟””وہ کیا آگے دکھائی دیتا ہے۔” تم اس آندھی میں رک کیوں نہیں گئیں؟””چھوٹے چھوٹے بچے گھر پر ہیں، کیسے رک جاتی۔ مرد تو بھگوان کے گھر چلا گیا۔”آندھی کا ایسا زبردست ریلا آیا کہ میں شاید دو تین قدم آگے کھسک گیا، گرد و غبار کی ایک دھونکنی سی منہ پر لگی، اس کاکیا حشر ہوا مجھے خبر نہیں۔ پھر میں وہیں کھڑا رہ گیا۔ فلسفے نے کہا، اس عورت کیلیئے زندگی میں کیا راحت ہے، کوئی ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا ہوگا اور دو تین فاقہ کش بچے۔ بیکسی میں موت کا کیا غم، موت تو اس کے لیےباعثِ نجات ہوگی۔ میری حالت اور ہے، زندگی اپنی تمام دل فریبیوں اور رنگینیوں کے ساتھ میری ناز برداری کر رہی ہے۔ حوصلے میں، ارادے میں اسے کیوں کر خطرے میں ڈال سکتا ہوں۔میں نے پھر گھوڑے کے ایالوں میں منہ چھپا لیا، شتر مرغ کی طرح جو خطرے سے بچنے کی کوئی راہ نہ پا کر بالوں میں سر چھپا لیتا ہے۔ وہ آندھی کی آخری سانس تھی، اس کے بعد بتدریج زور کم ہونے لگا، یہاں تک کہ کوئی پندرہ منٹ میں مطلع صاف ہو گیا۔ نہ گرد و غبار کا نشان تھا نہ ہوا کے جھونکوں کا، ہوا میں ایک فرحت بخش خنکی آ گئی تھی۔ ابھی مشکل سے پانچ بجے ہو ںگے۔ سامنے ایک پہاڑی تھی، اس کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، میں جوں ہی اس گاؤں میں پہنچا، وہی عورت ایک بچے کو گود میں لیے میری طرف آ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس نے پوچھا۔ “تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں ڈری کہ تم رستہ نہ بھول گئے ہو، تمھیں ڈھونڈنے جا رہی تھی۔”میں نے اس کی انسانیت سے متاثر ہو کر کہا۔ “میں اس کے لئے تمھارا بہت ممنون ہوں، آندھی کا ایسا ریلا آیا کہ مجھے رستہ نہ سوجھا، میں وہیں کھڑا رہ گیا۔ یہی تمھارا گاؤں ہے، یہاں سے گجن پور کتنی دور ہے؟””بس کوئی دھاپ بھر سمجھ لو، رستہ بالکل سیدھا ہے، کہیں دہنے بائیں مڑیو نہیں، سورج ڈوبتے ڈوبتے پہنچ جاؤ گے۔” یہی تمھارا بچہ ہے؟””نہیں ایک اور اس سے بڑا ہے،جب آندھی آئی تو دونوں نمبر دار کی چوپال میں جا کر بیٹھے تھے کہ جھونپڑی کہیں اڑ نہ جائے۔ جب سے آئی ہوں یہ میری گود سے نہیں اترتا، کہتا ہے تو پھر بھاگ جائے گی، بڑا شیطان ہے لڑکوں میں کھیل رہا تھا۔ محنت مزدوری کرتی ہوں بابو جی، ان کو پالنا تو ہے، اب میرا کون بیٹھا ہوا ہے جس پر ٹیک کروں، گھاس لے کر بیچنے گئی تھی، کہیں جاتی ہوں تو من ان بچوں میں لگا رہتا ہے۔”میرا دل اتنا اثر پذیر تو نہیں لیکن اس دہکان عورت کے بے لوث اندازِ گفتگو، اسکی سادگی اور جذبۂ مادری نے مجھ پر تسخیر کا سا عمل کیا۔ اسکے حالات سے مجھے گونہ دلچسپی ہو گئی، پوچھا۔ “تمھیں بیوہ ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں؟”عورت کی آنکھیں نم ہو گئیں، اپنے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے بچے کے رخسار کو اپنی آنکھوں سے لگا کر بولی۔”ابھی تو کل چھ مہینے ہوئے ہیں بابو جی، بھگوان کی مرضی ہے آدمی کا کیا بس۔ بھلے چنگے ہل لےکر لوٹے، ایک لوٹا پانی پیا، قے ہوئی بس آنکھیں بند ہو گئیں، نہ کچھ کہا نہ سنا، میں سمجھی تھکے ہیں سو رہے ہیں جب کھانا کھانے کے لیے اٹھانے لگی تو بدن ٹھنڈا تھا۔ تب سے بابو جی گھاس چھیل کر پیٹ پالتی ہوں اور بچوں کو کھلاتی ہوں، کھیتی میری ماں کی نہ تھی، بیل بدھئے بیچ کر ان کے کریا کرم میں لگا دیئے۔ بھگوان تمھارے ان دونوں غلاموں کو زندگی دے میرے لیے یہی بہت ہیں۔”میں موقع اور محل سمجھتا ہوں اور نفسیات میں بھی دخل رکھتا ہوں لیکن اس وقت مجھ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں آبدیدہ ہو گیا اور جیب سے پانچ چھ روپے نکال کر اس عورت کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ “میری طرف سے یہ بچوں کی مٹھائی کھانے کے لیے لو، مجھے موقع ملا تو پھر کبھی آؤں گا۔” یہ کہہ کر میں نے بچے کے رخساروں کو انگلی سے چھو ا۔ماں ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولی۔ “نہیں بابو جی یہ رہنے دیجیے، میں غریب ہوں لیکن بھکارن نہیں ہوں۔””یہ بھیک نہیں ہے، بچوں کے مٹھائی کھانے کے لیے ہے۔ “”نہیں بابو جی۔””مجھے اپنا بھائی سمجھ کر لے لو۔””نہیں بابو جی، بھگوان تمھارا بھلا کریں، اب چلے جاؤ تمھیں دیر ہو جائے گی۔”میں دل میں اتنا خفیف کبھی نہ ہوا تھا، جنہیں میں جاہل، کور باطن، بے خبر سمجھتا تھا اسی طبقے کی ایک معمولی عورت میں یہ خود داری، یہ فرض شناسی، یہ توکل۔ اپنے ضعف کے احساس سے میرا دل جیسے پامال ہو گیا۔ اگر تعلیم فی الاصل تہذیبِ نفس ہے اور محض اعلیٰ ڈگریاں نہیں تو یہ عورت تعلیم کے معراج پر پہنچی ہوئی ہے۔ میں نے نادم ہو کر نوٹ جیب میں رکھ لیا اور گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے پوچھا۔ “تمھیں اس آندھی میں ذرا بھی ڈر نہ معلوم ہوتا تھا؟”عورت مسکرائی، “ڈر کس بات کا؟ بھگوان تو سب ہی جگہ ہے، اگر وہ مارنا چاہے تو کیا یہاں نہیں مار سکتا۔ میرا آدمی گھر آ کر بیٹھے بیٹھے چل دیا،آج وہ ہوتا تو تم ا س طرح گجن پور اکیلے نہ جانے پاتے، جا کر تمھیں پہنچا آتا، تمھاری خدمت کرتا۔”گھوڑا اڑا جا رہا تھا، میرا دل اس سے زیادہ تیزی سے اڑ رہا تھا جیسے کوئی مفلس سونے کا ڈلا پا کر دل میں ایک طرح کی پرواز کا احساس کرتا ہے، وہی حالت میری تھی۔ اس دہقان عورت نے مجھے وہ تعلیم دی جو فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کے دفتروں سے بھی حاصل نہ ہوئی تھی۔ میں اس مفلس کی طرح اس سونے کے ڈلے کو گرہ میں باندھتا ہوا ایک غیر مترقبہ نعمت کے غرور سے مسرور، اس اندیشے سے خائف کہ کہیں یہ اثر دل سے نہ مٹ جائے، اڑا چلا جارہا تھا۔ بس یہی فکر تھی کہ ا س کو پارۂ دل کے کسی گوشے میں چھپا لوں جہاں کسی حریص کی اس پر نگاہ نہ پڑے۔گجن پور ابھی پانچ میل سے کم نہ تھا۔ رستہ نہایت پچیدہ، پیڑ بے برگ و بار، گھوڑے کو روکنا پڑتا۔ تیزی میں جان کا خطرہ تھا۔ آہستہ سنبھلتا ہوا چلا جاتا تھا کہ آسمان سے ابر گھر آیا، کچھ تو پہلے ہی سے چھایا ہوا تھا ،پر اب اس نے ایک عجیب صورت اختیار کر لی۔ برق کی چمک اور رعد کی گرج شروع ہوئی پھر افقِ مشرق کی طرف سے زرد رنگ کے ایک ابر کی تہہ اس مٹیالے رنگ پر زرد لیپ کرتی ہوئی تیزی سے اوپر کی جانب دوڑتی نظر آئی۔ میں سمجھ گیا اولے ہیں، پھاگن کے مہینے میں اس رنگ کے بادل اور گرج کی یہ مہیب گڑگڑاہٹ ژالہ باری کی علامت ہے۔گھٹا سر پر چڑھتی چلی جاتی تھی۔ یکایک سامنے ایک کفِ دست میدان آ گیا جس کے پرلے سرے پر گجن پور کے ٹھاکر دوارے کا کلس صاف نظر آ رہا تھا۔ کہیں کسی درخت کی بھی آڑ نہ تھی لیکن میرے دل میں مطلق کمزوری نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مجھ پر کسی کا سایہ ہے ،جو مجھے ہر آفت ہر گزند سے محفوظ رکھے گا۔ابر کی زردی ہر لمحہ بڑھتی جاتی تھی، شاید گھوڑا اس خطرے کو سمجھ رہا تھا، وہ بار بار ہنہناتا تھا اور اڑ کر خطرے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا۔ میں نے بھی دیکھا کہ راستہ صاف ہے،لگام ڈھیلی کر دی۔ گھوڑا اڑا، میں اس کی تیزی کا لطف اٹھا رہا تھا، دل میں خوف کا مطلق احساس نہ تھا۔ایک میل نکل گیا ہوں گاکہ ایک رپٹ آ پڑی، پہاڑی ندی تھی جس کے پیٹے میں کوئی پچاس گز لمبی رپٹ بنی ہوئی تھی۔ پانی کی ہلکی دھار رپٹ پر سے بہہ رہی تھی، رپٹ کے دونوں طرف پانی جمع تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک اندھا لاٹھی ٹیکتا ہوا رپٹ سے گزر رہا تھا۔ وہ رپٹ کے ایک کنارے سے اتنا قریب تھا کہ میں ڈر رہا تھا کہیں گر نہ پڑے۔ اگر پانی میں گرا تو مشکل ہوگی کیونکہ وہاں پانی گہرا تھا۔ میں نے چلا کر کہا، “بڈھے داہنے کو ہو جا۔” بڈھا چونکا اور گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر شاید ڈر گیا، داہنے تو نہیں ہوا اور بائیں کی طرف ہو لیا اور پھنس کر پانی میں گر پڑا۔ اس وقت ایک ننھا سا اولا میرے سامنے گرا، دونوں مصیبتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں۔ندی کے اس پار ایک مندر تھا، اس میں بیٹھنے کی جگہ کافی تھی، ایک منٹ میں وہاں پہنچ سکتا تھا لیکن یہ نیا عقدہ سامنے آ گیا۔ کیا اس اندھے کو مرنے کے لیے چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگوں؟ حمیت نے اسے گوارا نہ کیا، زیادہ پس و پیش کا موقع نہ تھا، میں فوراً گھوڑے سے کودا،کئی اولے میرے چاروں طرف گرے، میں پانی میں کود پڑا۔ ہاتھی ڈباؤ پانی تھا، رپٹ کے لئے جو بنیاد رکھی گئی تھی وہ ضرورت سے زیادہ چوڑی تھی۔ ٹھیکیدار نے دس فٹ چوڑی رپٹ تو بنا دی، مگر کھدی ہوئی مٹی برابر نہ کی، بڈھا اسی گڑھے میں گرا تھا۔ میں بھی غوطہ کھا گیا لیکن تیرنا جانتا تھا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ میں نے دوسری ڈبکی لگائی اور اندھے کو باہر نکالا۔ اتنی دیر میں وہ سیر پانی پی چکا تھا، جسم بے جان ہو رہا تھا ا س لئے بڑی مشکل سے باہر نکالا، دیکھا تو گھوڑا بھاگ کر مندر میں جا پہنچا ہے۔ اس نیم جان لاش کو لیے ہوئے ایک فرلانگ چلنا آسان نہ تھا، اوپر اولے تیزی سے گرنے لگے تھے، کبھی سر پر کبھی شانے پر کبھی پیٹھ میں گولی سی لگ جاتی تھی، میں تلملا اٹھتا تھا، لیکن اس لاش کو سینے سے لگائے مندر کی طرف لپکا چلا جاتا تھا۔میں اس وقت اپنے دل کے جذبات بیان کروں تو شاید خیال ہو میں خواہ مخواہ تعلی کر رہا ہوں۔ اچھے کام کرنے میں ایک خاص مسرت ہوتی ہے، مگر میری خوشی ایک دوسری ہی قسم کی تھی، وہ فاتحانہ مسرت تھی، میں نے اپنے اوپر فتح پائی تھی۔آج سے پہلے غالباً میں اندھے کو پانی میں ڈوبتے دیکھ کر یا تو اپنی راہ چلا جاتا یا پولیس کو رپورٹ کرتا۔ خاص اس حالت میں جبکہ سر پر اولے پڑ رہے ہوں میں کبھی پانی میں نا گھستا۔ ہر لمحہ خطرہ تھا کہ کوئی بڑا سا اولا سر پر گر کر عزیز جان کا خاتمہ نہ کر دے،مگر میں خوش تھا کیونکہ آج میری زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔میں مندر میں پہنچا تو سارا جسم زخمی ہو رہا تھا، مجھے اپنی فکر نہ تھی۔ ایک زمانہ ہوا میں نے فوری امداد (فرسٹ ایڈ) کی مشق کی تھی وہ اس وقت کام آئی۔ میں نے آدھ گھنٹے میں اس اندھے کو اٹھا کر بٹھا دیا۔ اتنے میں دو آدمی اندھے کو ڈھونڈتے ہوئے مندر میں آ پہنچے، مجھے اسکی تیمار داری سے نجات ملی۔ اولے نکل گئے تھے، میں نے گھوڑے کی پیٹھ ٹھونکی، رومال سے ساز کو صاف کیا اور گجن پور چلا، بے خوف و خطر دل میں ایک غیبی طاقت محسوس کرتا ہوا۔ اسی وقت اندھے نے پوچھا۔ “تم کون ہو؟ بھائی مجھے تو کوئی مہاتما معلوم ہوتے ہو۔‘‘میں نے کہا۔ ’’تمھارا خادم ہوں۔‘‘’’تمھارے سر پر کسی دیوتا کا سایہ معلوم ہوتا تھا۔‘‘’’ہاں ایک دیوی کا سایہ نہیں، میرے لئے وہ دیوی ہے۔‘‘’’وہ کون دیوی ہے؟‘‘’’وہ دیوی پیچھے گاؤں میں رہتی ہے۔‘‘’’تو کیا وہ عورت ہے؟‘‘’،