مکے بازی کی مشق،غصے کی نکاسی، حریفوں کو نیچا دکھانے،مسائل سے توجہ ہٹانے اور شارٹ کٹ سیاسی و انتخابی کامیابی کے لیے اقلیتوں سے بہتر پنچنگ بیگ آج تک ایجاد نہیں ہو سکا۔
مارچ 2009ء میں اتر پردیش کے شہر پیلی بھیت میں دو مقامات پر لوک سبھا چناؤ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے آنجہانی اندراگاندھی کے نواسے اور بی جے پی کے امیدوار ورون گاندھی نے فرمایا، ’’یہ پنجہ نہیں کنول کا ہاتھ ہے۔یہ کٹوے (ختنہ یافتہ)کے گلے کو کاٹ دے گا۔ سارے ہندو ایک ہو جاؤ بھارت کو بچانے کے لیے۔کانگریسی سرکار کیا کر رہی ہے؟
اگر کسی ہندو ودھوا (بیوہ) کو دس ہزار روپے دیتی ہے تو سرکاری کرمچاری (اہل کار) کہتا ہے کل آنا پرسوں آنا۔جلدی ہے تو اس میں سے پانچ ہزار ہمیں دے دو۔ اور اگر کسی عورت کا نام سائرہ بانو، اختری بیگم ہے تو فوراً پیسے مل جاتے ہیں۔ایک تو ان لوگوں کے نام کتنے ڈراؤنے ہیں؟ کریم اللہ، مظہر اللہ اور جانے کیا کیا۔ورون گاندھی کو کامیاب کرو، وہی اس کیھتر (انتخابی حلقے) میں ہندوؤں کی عزت کی رکھشا کر سکتا ہے۔گاؤں گاؤں ہلہ مچاؤ۔سب ایک ہو جاؤ ان راکھشسوں (مسلمان) کے سامنے۔جے شری رام۔
اس تقریر پر ایکشن لیتے ہوئے یو پی کی ملائم سنگھ حکومت نے ورون گاندھی کے خلاف نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے تین دن کے لیے جیل بھیج دیا۔ مگر ورون گاندھی چناؤ میں کامیاب ہوئے۔ اتر پردیش کے گورکھ ناتھ مندر کے مہنت اور بی جے پی کے منتخب ایم ایل اے یوگی ادتیاناتھ نے 2014ئمیں مودی حکومت بنتے ہی اپنے بیانات و ریلیوں میں کچھ یوں گل افشانی کی، ’’جو مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر اور پھر مسلمان بنا کر شادی کے نام پر لو جہاد کر رہے ہیں۔انھیں روکنا ہوگا۔اگر تم ہماری ایک لڑکی نکالو گے تو ہم سو نکالیں گے۔اگر انھوں نے ایک ہندو مارا تو ہم سو ماریں گے۔میرا بس چلے تو ہر مسجد میں مورتیاں رکھوا دوں۔بی جے پی کا ساتھ دو اس کے بدلے مسلمانوں سے پاک دیش لو…
(ان خیالات کے عوض بی جے پی کو یوپی اسمبلی میں کسی بھی مسلمان رکن سے پاک دو تہائی سے زائد اکثریت اور یوگی ادتیاناتھ کو یوپی کی وزارتِ اعلی کا انعام ملا)۔ بودھ راہب اشین وراتھو آج کے میانمار میں آنگ سانگ سوچی سے زیادہ مقبول اور طاقتور ہیں کیونکہ وہ برما کو پانچ فیصد برمی مسلمانوں سے بچانے کے لیے خود کو ایک مضبوط ڈھال کہتے ہیں۔انھوں نے برمی بودھ اکثریت کو بنگالی دہشتگردوں (روہنگیا) سے ملک کو پاک کرنے کا شعور دیا ہے۔فرماتے ہیں۔
’’یہ وقت آرام کا نہیں بلکہ کھڑے ہونے اور خون گرمانے کا ہے۔برما میں جو مسلمان ہیں ان میں سے نوے فیصد انتہا پسند اور برائی کا منبع ہیں۔وہ اپنی آبادی تیزی سے بڑھا رہے ہیں تاکہ خلیجی ممالک کی دولت کے ذریعے برما پر قبضہ کر لیں۔ بودھ مذہب ہمیں جارحیت کا درس نہیںدیتا مگر اپنے دفاع سے نہیں روکتا۔ضرورت پڑی تو میں باماروں کو (برما کا اکثریتی نسلی گروہ) سازشی مسلمانوں اور دہشتگردوں سے بچانے کے لیے اپنی جان قربان کردوں گا۔میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں مسلمان اسکولوں میں پڑھائے جانے والے اسباق کا وڈیو ریکارڈ رکھا جائے اور انٹر نیٹ پر ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے۔وہ ہم پر گھر جلانے کا الزام لگاتے ہیں۔بودھ کسی کا گھر نہیں جلاتے۔یہ (مسلمان) خود اپنے گھر جلا کر ہمیں بدنام کرتے ہیں۔یہ ہم پر ریپ کا الزام لگاتے ہیں۔ کون ریپ کرے گا۔ان کے جسموں سے تو گھن آتی ہے۔
گیارہ اگست کو پاکستان میں اقلیتوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔اس سے ایک روز پہلے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے داماد اور رکنِ قومی اسمبلی کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ ہم قائدِ اعظم کے نام پر قائم یونیورسٹی کے شعبہِ فزکس کا نام بدل کے کسی ایسے متنازعہ شخص کے نام پر برداشت نہیں کریں گے جس کا فرقہ تہتر کے آئین کے مطابق کافر قرار دیا گیا ہو۔ جنابِ اسپیکر اگر قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہِ فزکس کا نام (ڈاکٹر عبدالسلام انسٹی ٹیوٹ) تبدیل نہ کیا گیا تو میں یہاں ہر روز احتجاج کروں گا (حالانکہ یہ نام کپتان صفدر کے سسر نواز شریف کی منظوری سے رکھا گیا)۔
کیپٹن صفدر نے فرمایا کہ مولانا مودودی نے دو کتابیں لکھیں جن میں سے ایک تھی قادیانی مسئلہ۔جب عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو عربوں نے پاکستان سے افرادی قوت لینے کی بات کی۔یہاں سے جہاز بھر بھر کے گئے (یہ کس عرب اسرائیل جنگ کی بات ہے؟) اس کے بعد سعودیوں نے شکایت کی کہ ہماری معلومات اسرائیل کیسے جا رہی ہیں۔انھیں بتایا گیا کہ جو لوگ پاکستان سے آئے ہیں وہی یہ معلومات لیک کر رہے ہیں۔
اس پر مولانا مودودی نے یہ کتاب (قادیانی مسئلہ) لکھی جو1962ء میں کویت سے شایع ہوئی۔اس کے بعد انھوں نے چار سو پچیس صفحات کی ایک اور کتاب لکھی جس کا عربی میں ترجمہ ہوا۔انھوں نے بتایا کہ یہ اسرائیل اور تاجِ برطانیہ کا پودا ہے جو برِصغیر کے مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے کے لیے لگایا گیا۔ اس کے بعد ان لوگوں کو (قادیانی) وہاں سے (سعودی عرب) واپس کیا گیا۔اس کے بعد سید مودودی کی کتابوں کا پھر عربی میں ترجمہ ہوا۔پھر ان کتابوں کو افریقہ بھیجا گیا۔ (واضح رہے کہ ان دنوں مولانا مودودی کی بیشتر تصنیفات پر سعودی عرب میں پابندی ہے)۔
میں یہ قرار داد بھی لانا چاہتا ہوں کہ افواجِ پاکستان میں قادیانیوں کی بھرتی پر پابندی لگائی جائے کیونکہ ان کے جھوٹے مذہب میں جہاد فی سبیل اللہ کا تصور نہیں ہے (تو کیا فوج کے ہندو، کرسچن اور سکھ سپاہیوں میں جہاد فی سبیل اللہ کا تصور ہے؟ فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے وضاحت کی ہے کہ فوج میں ہر مسلمان افسر کو ختمِ نبوت پر ایمان کا سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے اور بقول ان کے کیپٹن صفدر شائد بھول گئے کہ انھوں نے بھی دیا تھا)۔
اور کتنا ظلم ہوا جب ہم 1971ء کی جنگ لڑ رہے تھے تو ٹینتھ کور کا کمانڈر جنرل عبدالعلی قادیانی کا بھائی تھا (جنرل اختر حسین ملک ہلالِ جرات )۔اور میں تو حیران ہوں کہ چوہدری ظفر اللہ (ایرمارشل ظفر چوہدری) فضائیہ کا چیف بنا اور وہ بھی قادیانی۔جو ختم نبوت پر رکیک حملے کرتے ہیں کیا وہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے وفادار ہوں گے۔آج فیصلہ کر لو کہ ہم دین کے دشمنوں کو اہم عہدوں پر نہیں دیکھنا چاہتے۔گریڈ بائیس کے افسر کیوں حلف نامہ نہیں دیتے کہ وہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ختمِ نبوت کا فیصلہ کیا ،اسے تختہِ دار پر چڑھنا پڑا (بھٹو صاحب نے ائرمارشل ظفر چوہدری کو فضائیہ کا سربراہ بھی بنایا تھا۔انھیں پھانسی ضیا الحق کے دور میں سپریم کورٹ کے حکم پر دی گئی)۔
اور جناب میں حیران ہوں عدالتوں کے کمزور کردار پر۔جسٹس محمد منیر نے 1953ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کے بارے میں رپورٹ مرتب کی۔جس جسٹس منیر نے مولوی تمیز الدین کے خلاف فیصلہ دے کر ملک دو لخت کیا وہ قادیانیوں کے حق میں فیصلہ دینے جا رہا تھا۔شکر ہے اس وقت ملک میں ایمان افروز قوتیں طاقتور تھیں۔پھر جسٹس منیر ایوب خان کا دست و بازو بنا۔
اور ہم مشرف دور تک آتے ہیں تو جب بارہ اکتوبر کو مارشل لا لگا اور آئین توڑ دیا گیا (آئین توڑ انکشاف بھی قابلِ غور ہے) تو ہر کوئی (قادیانی) خوشیاں منا رہا تھا کہ جس آئین نے ہمیں کافر قرار دیا وہ ٹوٹ گیا۔میں نے جیل سے بیان دیا کہ بارہ اکتوبر کا انقلاب فوجی انقلاب نہیں قادیانی انقلاب ہے کیونکہ مشرف کا سارا سسرال قادیانی ہے۔ان کا طریقہ ہے کہ اعلی افسروں سے بیٹیوں کی شادی کرو تاکہ یہ آگے چل کر ان کے لیے کام کریں۔
مشرف دور میں ڈوگر کورٹس ملتی ہیں۔جسٹس ارشاد حسن خان ملتے ہیں۔یہ تو تین تین سال نوکری کر کے ختم ہوگئے۔مگر ان کو کیا حق تھا کہ وہ قانون کے نیچے بٹھا کر قادیانیوں، احمدیوں، لاہوریوں اور مرتدوں کا دفاع کرتے۔ ہماری عدلیہ میں جو لوگ بیٹھے ہیں ان سے بھی ختمِ نبوت کے سرٹیفیکیٹ پر دستخط کروانے چاہئیں۔(تاکہ یہ معلوم ہو سکے) کہ کہیں ماضی میں یہ لوگ اس فرقے سے تو تعلق نہیں رکھتے تھے یا اب چھپ کر ہماری صفوں میں تو نہیں گھس گئے۔کیا یہی لوگ قرآن و سنت کے مطابق ہمارے فیصلے کریں گے؟
پاکستان ایٹمی ملک ہے اور اٹامک انرجی کمیشن ایک حساس ادارہ ہے۔ہمیں اسے بچانا ہے۔ہمیں اس جگہ ایسا شخص قبول نہیں جو نظریہ پاکستان کا مخالف ہو اور جس نے بنگلہ دیش بننے پر چراغاں کیا ہو۔(اس وقت چیرمین محمد نعیم ہیں جنھیں نواز شریف حکومت نے 2015ء میں مقرر کیا اور ان کی تینتالیس سالہ خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز بھی دیا۔یہ تحقیق طلب ہے کہ ان کا فرقہ یا عقیدہ کون سا ہے)۔
اور میری تجویز ہے کہ ہر پارٹی ٹکٹ دینے سے پہلے امیدواروں سے ختمِ نبوت کے حلف نامے پر دستخط کروائے۔ہم صادق اور امین ہیں تبھی تو یہاں لاکھ لاکھ ووٹ لے کر آتے ہیں۔ہمیں کسی سے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ نہیں چاہیے۔ہمارے ماں باپ کی تربیت ہی ہمارے لیے صادق اور امین ہے (واضح رہے کیپٹن صفدر کو نیب میں کرپشن مقدمات کا سامنا ہے اور تقریر سے ایک دن پہلے وہ نیب کی مہمانی میں تھے)۔
کیپٹن صفدر کی تقریر فصاحت و بلاغت اور صحتِ معلومات کے اعتبار سے بے مثال اور اب قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔
جانے مجھے ایڈولف ہٹلر کی وہ تقریر یاد آ رہی ہے جو انھوں نے سات اگست 1920ء کوسالز برگ میں کی تھی۔
’’یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ آنکھیں بند کرنے یا کچھ رعائتیں دینے سے حل ہو جائے گا۔ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ بحیثیت قوم کیا ہم یہود نامی بیماری سے کبھی نجات پا سکیں گے۔آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ بیماری کو جرثومہ ختم کیے بغیر ختم کیا جا سکتا ہے۔یہودی آلودگی کبھی ختم نہیں ہو سکتی جب تک یہ آلودگی پھیلانے والے ہماری صفوں میں پلتے رہیں گے۔
(اس خطاب کے تیرہ برس بعد ہٹلر جرمنی کے سیاہ و سفید کا بذریعہ ووٹ مالک بن چکا تھا)۔