بھارتی گاؤں مدھیہ پردیش میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے جہاں کہ رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ اس گاؤں میں پچھلے 400 سال سے کسی عورت نے بچے کو جنم نہیں دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مدھیہ پردیش کے ضلع راج گڑھ میں واقع گاؤں سنکا شام جی کے رہائشیوں کا ماننا ہے کہ گاؤں کی حدود میں کوئی عورت بچے کو جنم نہیں دے سکتی، ماضی میں اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو یا تو بچہ پیدائشی طور پر معذوری کا شکار تھا یا پھر زچہ بچہ میں سے کوئی ایک اپنی جان گنوا بیٹھا۔ گاؤں والوں کا عقیدہ ہے کہ سترھویں صدی میں گاؤں میں مندر تعمیر کیا جارہا تھا لیکن ایک عورت مندر بنانے کے کام میں ہاتھ بٹانے کے بجائے گندم پیسنے میں لگی ہوئی تھی، جس پر دیوتاؤں کو غصہ آگیا اور انہوں نے بد دعا دی کہ گاؤں کی کوئی عورت بچہ جنم نہیں دے گی۔ اس وقت سے عورتیں گاؤں کی حدود میں بچہ جنم نہیں دیتیں۔ گاؤں کے سرپنچ نریندرا گرجار کا کہنا ہے کہ گاؤں کی 90 فیصد خواتین زچگی کے لیے گاؤں کے قریب ایک اسپتال جاتی ہیں اور ہنگامی صورت حال ہو تو خاتون کو فوری طور پر گاؤں کی حدود سے باہر لے جایا جاتا ہے جہاں اس کے لئے ایک خاص کمرہ تعمیر کیا گیا ہے اور وہاں بچے کو جنم دیاجاتا ہے۔جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق نیا کے مختلف معاشروں میں مختلف قسم کے رسوم و رواج پائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ایسے ایسے عجوبے پائے جاتے ہیں کہ جن کی مثال کہیں اور ملنا مشکل ہے. ایک ایسا ہی عجوبہ ریاست مدھیا پردیش میں بسنے والا گونڈ قبیلہ ہے کہ جہاں کسی بھی خاتون کو بیوہ نہیں رہنے دیا جاتا، چاہے اس کی شادی اس کے اپنے ہی پوتے سے کیوں نہ کرنا پڑے. اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس قبیلے کی روایت ہے کہ کوئی بھی خاتون بیوہ نہیں رہ سکتی. اسی روایت کے تحت مرنے والے شخص کی بیوہ کی شادی اس کے خاندان میں دستیاب کسی بھی مرد سے کردی جاتی ہے. اگر مرنے والے کا بھائی یاکزن وغیرہ دستیاب ہو تو اس سے شادی ہوجاتی ہے ورنہ خاندان کے کسی بچے سے شادی کر دیشادی کر دی جاتی ہے. اگر خاندان میں کوئی بچہ بھی دستیاب نہ ہو تو اس صورت میں کسی دیگر خاندان کی خاتون بیوہ کو چاندی کی چوڑیوں کا تحفہ دیتی ہے اور اسے اپنے گھر لیجاتی ہے، اور یوں ایک کا خاوند دوسری کا بھی خاوند بن جاتا ہے.گونڈ قبیلے کے گاﺅں بیہانگہ سے تعلق رکھنے والے شخص پتی رام نے بتایا کہ جب اس کے دادا کا انتقال ہوا تو وہ محض چھ برس کا تھا. اس کی بیوہ دادی سے شادی کے لئے کوئی بھی مرد موجود نہ تھا، لہٰذا اس کے دادا کی موت کے 9 دن بعد فیصلہ کیا گیا کہ بیوہ دادی چامری بائی کی شادی اس کے چھ سالہ پوتے سے ہوگی.پتی رام کا کہنا ہے کہ اس رسم کو ”ناتی پاتو“ کا نام دیا جاتا ہے، جس کے تحت اس کی شادی دادی کے ساتھ ہوگئی.پتی رام نے بتایا کہ جب وہ جوان ہوا تو اس نے ایک اور عورت سے شادی کرلی، مگر جب تک اس کی دادی زندہ رہی وہ عورت دوسری بیوی کے طور پر ہی زندگی گزارتی رہی. اس قبیلے کے لوگ پڑھ لکھ جائیں یا بڑے شہروں میں منتقل ہوجائیں تب بھی اپنی روایت پر عمل جاری رکھتے ہیں. قبائلی رہنما گلزار سنگھ مرکم کا کہنا تھا کہ ان کے گاﺅں کے دو نوجوان بھوپال شہر میں انجینئر کے عہدے پر فائز ہیں، لیکن انہوں نے بھی قبائلی روایت کے مطابق ”دیور پاتو“ شادی کررکھی ہے. ان کا کہنا تھا کہ یہ روایت صرف علامتی نہیں ہے بلکہ اس کا معاشرے میں حقیقی مقام ہے. انہوں نے بتایا کہ اگر کسی کمسن بچے کی شادی اس کی دادی کے ساتھ ہوجائے تو بچے کو خاتون کا حقیقی خاوند سمجھا جاتا ہے اور اسے خاندان کے سربراہ کا درجہ بھی مل جاتا ہے
.