کراچی: سپیکرسندھ اسمبلی آغاسراج درانی کے خلاف نیب کارروائی کی بنیاد خاتون سیاسی رہنما افشاں عمران کی سندھ ہائی کورٹ میں دائرآئینی پٹیشن بنی، گرفتاری کے بعد سندھ اسمبلی میں بدعنوانی کے علاوہ آغا سراج درانی کے بطور سابق وزیر بلدیات اور تعلیم کے معاملات کی بھی چھان بین شروع کردی گئی
ایس ای سی پی سے آغا سراج درانی اوراہل خانہ کی کمپنیوں جبکہ کراچی سمیت 4 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، ریونیو افسران سے جائیداد کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا، آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام کے علاوہ غیرقانونی بھرتیوں اور ایم پی اے ہاسٹل و سندھ اسمبلی بلڈنگ کی تعمیر میں کرپشن کے بھی الزامات کی چارج شیٹ تیار کرلی گئی، منظور قادر کاکا، آغا مقصود عباس سمیت حکومت سندھ میں ان کے کئی بااعتماد افسران ساتھیوں کو بھی شامل تفتیش کیے جانے کا امکان ہے۔ افشاں عمران نے 2016 میں سپیکر اسمبلی آغا سراج درانی، سیکرٹری، قانون، چیئرمین نیب، ڈی جی نیب سندھ، صوبائی اینٹی کرپشن اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔ بعدازاں افشاں عمران نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی جو سندھ ہائیکورٹ نے مسترد کرتے ہوئے نیب کو آغا سراج درانی کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔ گزشتہ برس جولائی میں نیب نے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے خلاف کرپشن کے مختلف الزامات پر انکوائری کی منظوری دی۔ ایڈیشنل ڈپٹی ڈائریکٹر نیب نے سندھ اسمبلی اور کراچی سمیت سندھ کے 4 اضلاع کے مختلف سرکاری اداروں کو ارسال کردہ خط میں متعلقہ افسران کو تمام ثبوت اکھٹے کرکے نیب کی سی آئی ٹی برانچ تک پہنچانے کا حکم دیا ہے، گرفتاری کے بعد آغا سراج درانی، ان کے رشتے دار اور دوستوں کے اثاثوں کی چھان بین شروع کر دی گئی ہے۔ اثاثوں کی تفصیلات کیلئے ان کے 11 رشتے داروں کے شناختی کارڈ نمبر فراہم کیے گئے ہیں اور آغا سراج درانی سے حاصل ہونے والی ابتدائی معلومات کی بنیاد پر تحقیقات کا دائرہ ان کے آبائی ضلع شکار پور گڑھی یاسین، حیدرآباد اور سکھر تک وسیع کر دیا گیا ہے۔