اسلام آباد(مانیٹرنگ رپورٹ) امریکی عاملِ تنويم (ہپنا ٹزم کی ماہر) گریس سمتھ جوکہ وہ شراب نوشی ترک کرنے میں تو کامیاب ہو گئیں مگر سگریٹ نوشی ترک کرنا انھیں ناممکن معلوم ہوتا تھا۔ سنہ 2011 میں جب وہ پچیس برس کی تھیں تو نیویارک میں ذہنی طور پر تھکا دینے والا یعنی چندہ جمع کرنے کا کام کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں ‘میرے پاس اس دباؤ والے کام کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی صحت افزا طریقہ کار نہیں تھا۔ تو پھر ایک طریقہ جو میں نے تمام دباؤ اور اضطراب کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا وہ پارٹی کرنا تھا۔‘
وہ اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میں لوئر ایسٹ سائڈ میں رہتی تھی۔ میں اور میرے دوست سارا دن بہت محنت سے کام کرتے تھے اور ساری رات دبا کر پارٹی کرتے تھے۔ مگر ایسا کرنے سے میری جسمانی اور ذہنی صحت سخت متاثر ہوئی۔‘کچھ عرصے بعد گریس کو احساس ہوا کہ انھیں اپنی صحت پر توجہ دینے اور اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، لہذا انھوں نے پارٹی کرنا چھوڑ دیا اور شراب نوشی ترک کر دی۔ لیکن وہ مختلف طریقے استعمال کرنے کے باوجود اپنی بہت زیادہ تمباکو نوشی کی عادت سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکیں۔آخر کار ایک دوست نے مشورہ دیا کہ وہ ’ہپناٹزم‘ کا سہارا لیں۔ گریس کہتی ہیں کہ ان کا ایسی باتوں پر بالکل اعتقاد نہیں تھا۔ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ گھڑیاں لہرانے جیسا ہو گا۔۔ یا محض ایک دھوکہ۔‘ وہ کہتی ہیں کہ وہ صرف ایک سیشن کے بعد وہ سگریٹ نوشی ترک کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور اس کامیاب تجربے نے انھیں خود کو ایک ’ہپنو تھراپسٹ‘ بننے کی ترغیب دی۔
آج گریس اپنا کاروبار ’گریس سپیس ہپنوسس‘ چلاتی ہیں۔ اس کمپنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگوں کو آن لائن تھراپی سیشن دیے ہیں، جن میں فارچون 500 کمپنیوں سے منسلک بڑے لوگ، کھلاڑی اور مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ 34 برس کی یہ نوجوان اب امریکی ٹیلی ویژن پر باقاعدگی سے نظر آتی ہیں اور ہپنوسس کے بارے میں دو کتابوں کی مصنف بھی ہیں۔ہپنو تھراپی کیا ہے؟ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں ہپنوٹزم کی وضاحت میں درج ہے کہ ’مصنوعی طور ایسی حالت پیدا کی جائے جس میں مفعول (جس شخص پر یہ عمل کیا جا رہا ہے) کی ذہنی یا جسمانی حالت کو کسی بھی طاقت کے استعمال کے بغیر تبدیل کیا جائے اور وہ بظاہر گہری نیند میں ہو، ماسوائے کچھ بیرونی تجویز یا احکامات کے زیرِ اثر جس کے تحت وہ غیر ارادی اور لاشعوری طور پر فرمانبردار ہو جائے۔‘
گریس اسے آسان الفاظ میں ’بامقصد مراقبہ‘ کہتی ہیں۔ ان کی خدمات حاصل کرنے والے اپنا وزن کم کرنے، کسی عادت سے جان چھڑانے، دباؤ سے نجات یا کسی مقصد کے حصول کی کوشش کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اب بھی ہپنو تھراپی کو ایک متنازع عمل سمجھتے ہیں لیکن اس کے استعمال کو بہت ساری طبی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر کینسر ریسرچ یو کے کا کہنا ہے کہ ’کینسر کا شکار کچھ مریض اپنی علامات سے آرام حاصل کرنے اور علاج سے نمٹنے میں مدد کے لیے ہپنو تھیراپی کا استعمال کرتے ہیں۔
‘
گریس نیو جرسی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ انھوں نے نیو یارک کے ویگنر کالج سے انگریزی، بزنس مینیجمنٹ اور دینی تعلیم کی مشترکہ ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے انسانی حقوق کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔سنہ 2011 میں ہپنو تھراپسٹ بننے کے لیے انھوں نے 250 گھنٹے کا سرٹیفیکیشن کورس مکمل کیا اور اس دوران وہ کُل وقتی نوکری بھی کر رہی تھیں۔ امریکہ میں اس تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دوسرے ملک میں اس ضمن میں تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔
گریس نے کورس ختم کرنے کے بعد چندہ اکٹھا کرنے کی نوکری چھوڑ دی اور نیویارک میں ایک ’چھوٹے‘ سے دفتر سے پیشہ ورانہ طور پر ہپنوتھیراپسٹ کے طور پر کام شروع کیا۔ اپنے پہلے گاہک کو راغب کرنے کے لیے انھوں نے ’لیونگ سوشل‘ نامی آن لائن پلیٹ فارم پر ابتدائی خصوصی پیش کش قیمت کا اشتہار دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ 24 گھنٹوں میں 952 سیشن فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئیں، اور اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے ان کے بارے میں مثبت رائے سن کر آنے لگے۔
ابتدائی سیشن بلمشافہ تھے ، لیکن پھر گریس نے اپنے کاروبار کو آن لائن منتقل کر دیا۔ سیشن ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا کرنے کا خیال انھیں ایک کاروباری کلائنٹ سے آیا جو کام کی وجہ سے سفر کے دوران بھی اپنے سیشن جاری رکھنا چاہتے تھے۔ کام شروع کرنے کے دو سال بعد برازیل سے تعلق رکھنے والے ان کے شوہر برنارڈو فیٹوسا اس کاروبار میں شامل ہوئے اور انھوں نے ٹیکنالوجی سے منسلک معاملات کی نگرانی سنبھال لی۔ حالیہ برسوں میں گریس اور فلوریڈا میں قائم ان کے کاروبار میں دلچسپی تیزی سے بڑھی ہے، اور اس کے پیچھے امریکی ٹی وی پر اُن کا نظر آنا ہے۔ وہ دن کے اوقات میں ہیلتھ چیٹ شو، دی ڈاکٹرز اور سونی کے ’دی ڈاکٹر‘ او ’زی شو‘ میں آئی ہیں۔آسٹریلیا میں ہپنو تھیراپی بزنس ’اوائیکن‘ کی بانی جوڈی کلارک کا کہنا ہے کہ گریس نے ’ہپنوسس کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔‘
ادھر برطانیہ میں کلینیکل ماہر نفسیات جیمی ہیکر ہیوز کا کہنا ہے کہ گریس اور دیگر ایسے ہپنو تھراپسٹ ’مریضوں کو وسیع پیمانے پر پیش آنے والے مسائل‘ میں مدد دینے میں بہت کارگر ثابت ہو سکتے ہیں، جب انھیں ’نفسیات، طب اور دندان سازی کے ساتھ تھراپی کے طور پر استعمال کیا جائے۔‘ مزید ہپنو تھراپسٹس کو تربیت دینے کے لیے سنہ 2016 میں گریس نے اپنا سکول کھولا جو انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف کونسلرز اینڈ تھیراپسٹ اور انٹرنیشنل ہپنوسس فیڈریشن دونوں کی جانب سے منظور شدہ ہے۔
گریس سپیس ہپنو تھراپی سکول نے اب تک 85 سے زائد افراد کو تربیت دی ہے۔ گریس کی مرکزی کمپنی کو ساتھ ملا کر جس میں 40 ملازمین ہیں انھیں رواں برس تین ملین ڈالر کی سالانہ آمدنی کی توقع ہے۔ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران اُنھوں نے دنیا بھر میں فرنٹ لائن میڈیکل عملے کو مفت سیشن کی پیش کش کی تھی۔ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے گریس کا کہنا ہے کہ وہ ہپنوتھراپی کو زیادہ وسیع پیمانے پر قابل قبول بنانے کے لیے مدد فراہم کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ اب بھی اس کے بارے میں وسیع پیمانے پر غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔‘ وہ اس بات سے ناخوش ہیں کہ کچھ لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ’ذہن پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔۔۔ جو حقیقت سے بہت دور ہے۔‘ گریس جو دو بچوں کی ماں بھی ہیں کہتی ہیں کہ ‘جب آپ جانتے ہوں کہ آپ دنیا میں کتنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔ پھر کوئی آپ کے کام کی قدرو قیمت گھٹانے کی ایسی اوچھی کوشش کرے تو یہ تکلیف دہ اور مایوس کُن ہوتا ہے۔