لاہور(ویب ڈیسک)میرے شکست خوردہ نظرآتے ذہن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ٹرمپ کے مخالفین بہت لگن سے یکسو ہوکر بھی اسے وسط مدتی انتخابات کے ذریعے لگام ڈالنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ اپنی کامیابی پر بہت شاداں ہے۔ اس کی خوشی عندیہ دے رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنی تعصب پرست پالیسیوں کو مزید ڈھٹائی سے عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف رہے گا۔
معروف صحافی نصرت جاوید اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔گزشتہ کالم میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں کہ ٹرمپ کی کامیابی کی بنیادی وجہ امریکی معیشت میں لگی رونق ہے۔ بیروزگاری میں نمایاں کمی کے ساتھ روزانہ اُجرت میں خاطر خواہ اضافہ اس کے حامیوں کو خوش رکھے ہوئے ہے۔ معاشی میدان میں رونق لگی رہے تو اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
میرے کئی قاری اکثر حیران ہوکر مجھ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ میں امریکہ جیسے ملکوں کی سیاست پر اتنی توجہ کیوں دیتا ہوں۔ ہمیں اس ملک کی سیاست سے کیا لینا۔ ہمارے اخبارات میں چھپے کالموں میں پاکستانی سیاست کی بات ہونا چاہیے۔
ان کی رائے اور خواہش کے دلی احترام کے باوجود میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ ہم دنیا سے کٹے کسی جزیرے میں مقید نہیں ہیں۔ ہماری سیاست کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی منظر نامے پر حاوی ہوتے رحجانات پر نگاہ رکھی جائے۔
ان رحجانات کے بارے میں ٹھوس اعدادوشمار جمع کرنے کے بعد مسلسل تحقیق ہورہی ہے۔ اس تحقیق کی بدولت یہ خدشات نمایاں ہورہے ہیں کہ اس صدی کے آغاز تک جمہوری نظام کی جس شکل کے ہم عادی رہے ہیں شاید موجودہ صورت میں برقرار نہ رہ سکے۔ اسکی جگہ کیا ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب کسی محقق کے پاس فی الوقت موجود نہیں ہے۔ اگرچہ کئی ایک کا اصرار ہے کہ دُنیا کے بے تحاشہ ممالک میں لوگ آمرانہ اختیارات والے ’’رہبر‘‘ کی تلاش میں ہیں جو جمہوریت اور ریاست کے روایتی اداروں کے بنائے ضوابط سے بالاتر ہوکر خلق خدا کے لئے ’’کچھ کرے‘‘۔
جس ’’رہبر‘‘ کی تلاش ہے وہ لوگوں کے دلوں میں کئی دہائیوں سے جاگزیں تعصبات کو ہوا دے کر اپنے ملک کے تباہ ہوجانے کا خوف پھیلاتا ہے۔ اس خوف کو اجاگر کرنے کے بعد وہ ’’میں ہوں ناں‘‘ والا رویہ اختیار کرتے ہوئے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے ملک کی بگڑی صورت حال کا ذمہ دار غیر ملکی تارکینِ وطن کو ٹھہرایا۔ ان کے دلوں میں یہ خوف اجاگر کیا کہ اگر امریکہ نے اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت تر نہ بنایاتو ایک دن امریکہ کے سفید فام اپنی اکثریت کھودیں گے۔ ان کا مذہب بھی خطرے میں پڑجائے گا۔کم از کم تین صدیوں تک پھیلی ’’امریکی روایات‘‘ قصۂ پارینہ ہوجائیں گی۔
امیگریشن کے علاوہ ٹرمپ کا یہ اصرار بھی رہا کہ امریکہ میں صنعتیں اس لئے بند ہورہی ہیں کہ اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے بجائے چین جیسے ممالک میں سستی اجرت کی بدولت منافع بڑھانے کو ترجیح دی۔ امریکی سرمایہ کاری کی وجہ سے امریکہ میں ایجاد ہوئے IPhone وغیرہ چین میں بن کر پوری دنیا کی منڈیوں میں بکتے ہیں۔ امریکی سٹور بھی چین سے درآمد ہوئی سستی اشیائے صرف سے لدے ہوئے ہیں۔ چینی درآمدات پر محصولات بڑھاتے ہوئے پابندیاں لگانا ہوں گی تاکہ امریکی صارفین کی طلب کو امریکہ ہی میں بنائی مصنوعات کے ذریعے پورا کیا جاسکے۔ اپنی حکومت کے دو سالوں کے دوران وہ انتخابی مہم کے دوران کئے اپنے وعدوں کو نبھاتا نظر آرہا ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی کا درست بنیادوں پر ہوا تجزیہ ہمیں اپنی سیاست کو سمجھنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے سے قبل عمران خان نے 22برسوں سے یہ دہائی مچائی کہ پاکستان کو نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں نے تباہ کردیا ہے۔ جمہوری نظام کی بدولت ’’باریاں‘‘ لینے والے سیاست دانوں سے نجات پانا ہوگی۔ انہیں احتساب کے شکنجے میں کسنا ہوگا۔ مایوس اور پریشان ہوئے کئی پاکستانیوں نے ان کا اعتبار کیا۔ اسی باعث وہ اپنے مخالفین کو ’’چور اور لٹیرے‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں تو کئی کلیجوں میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد وزیراعظم اور حکمران ٹیم نے بہت تواتر سے یہ خوف پھیلایا کہ پاکستان کا خزانہ سیاست دانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے خالی ہو چکا ہے۔ غیر ملکی قرضے ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں۔ یہ قرضے کسی معاشی منصوبے کے لئے خرچ ہوئے نظر نہیں آرہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ماضی کے حکمرانوں نے غیر ممالک میں جائیدادیں خریدنے اور ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا۔
پاکستان کی اقتصادی حالت کے بارے میں عمران حکومت کی مچائی دہائی کا حکومت مخالفین مؤثر انداز میں جواب نہ دے پائے۔ ان کے سرکردہ لوگ ویسے بھی احتساب بیورو کے اٹھائے سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ کئی ایک کو عدالتوں کے روبرو پیش ہونا ہوتا ہے۔ احتساب کے نام پر نازل ہوئی پریشانیوں میں گھرے رہنمائوں کی وجہ سے حکومت مخالفین کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ فی الوقت خلقِ خداکے لئے کونسا بیانیہ پیش کریں۔
اس کالم میں کئی بار میں نے یہ کہنے کی جسارت کی ہے کہ پاکستان یقینا اس وقت ’’معاشی مشکلات‘‘ کا شکار ہے۔ جس ’’بحران‘‘ کی دہائی مچائی جارہی ہے وہ البتہ ہرگز موجود نہیں۔ ’’بحران‘‘ کے دنوں میں آپ اگر خطیر رقم کا کوئی چیک لکھیں تو بینک اسے فوری طور پر کیش نہیں کرپاتے۔ پاکستان میں ایسی صورت حال موجود نہیں۔ نہ ہی ریاستی ادارے اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں ادا کرنے میں ناکام ہیں۔کاروبار میں رونق البتہ نظر نہیں آرہی۔ اس کی وجوہات مقامی کے علاوہ عالمی بھی ہیں اور عالمی وجوہات کا ہمارے پاس کوئی حل موجود نہیں۔ عمران حکومت مگر پاکستانی معیشت کے بارے میں خوف کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
یہ فضا بنانے کے بعد وزیراعظم سعودی عرب اور چین کے دوروں پر روانہ ہوگئے۔ ان دو ممالک کے رہنمائوں سے ملاقاتوں کے بعد ’’بحران‘‘ پر قابو پالینے کے دعوے ہورہے ہیں۔ سعودی عرب سے ملے 6ارب ڈالر والے پیکج کو چین کے ملے پیکج کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ چین سے ملے پیکج کی تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئیں۔ سرگوشیوں میں البتہ 4ارب ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔ ’’بحران‘‘ پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو فوری طور پر دس سے بارہ ارب ڈالر کی ضرورت تھی۔ حکومت نے اس کا انتظام کرلیا اور مطمئن ہو گئی۔ خوف پھیلانے کے بعد اعتماد دلانے والے اقدامات جن کی وجہ سے موجودہ حکومت کے مخالفین فی الوقت مزید پریشان ہوں گے۔
امریکہ کے وسط مدتی انتخابات سے جڑی تفصیلات پر نگاہ رکھے بغیر میں عمران حکومت کی ان ’’کامیابیوں‘‘ کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اپنی سیاست کو زیادہ بہترانداز میں سمجھنے کے لئے مجھے مزید کئی ممالک کی سیاست کو بھی ذرا غور سے دیکھنا ہوگا۔