لاہور (ویب ڈیسک) ہمارے دادا حضور نورالدین جنہیں ہم باباجی کہتے تھے، سعدی پارک مزنگ میں اپنے ہم عمروں کی بیٹھک میں بیٹھا کرتے تھے، مزنگ بازار اور چاہ پچھواڑا کے درمیانی راستے میں ایک چھوٹا سا لکڑی کادروازہ تھا، جو بظاہر کسی چھوٹے سے گھر کا داخلی راستہ معلوم ہوتا تھا، نامور کالم نگار خاور نعیم ہاشمی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درحقیقت یہ دروازہ (جو اب بھی موجود ہے)، سعدی پارک اور چاہ پچھواڑے کا شارٹ کٹ تھا جسے صرف محلے کے لوگ ہی جانتے تھے ، ہم اسی دروازے سے اسکول جایا کرتے تھے، اس دروازے میں داخل ہوتے ہی گھنے قدیمی درخت آپ کا استقبال کرتے ،شروع میں ہی بائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی مسجد تھی، اور مسجد سے ملحق ایک گھر جس میں باریش مولوی صاحب اپنی بیوی اور جوان بیٹی اور دیگر کئی بچوں سمیت رہائش پذیر تھے، ایک طویل صحن تھا اور اس کے آگے دالان اور پھر ایک بڑا کمرہ ،اس گھر کے قریب ہی بزرگوں کاوہ ڈیرہ تھا جہاں موڑھوں پر بیٹھ کروہ حقہ پیتے اور حالات حاضرہ پر تبصرے کیا کرتے تھے، بابا جی کی گھر میں کوئی ایمر جنسی ضرورت پڑ جاتی ، کوئی مہمان،رشتہ دار آ جاتے تو میں ہی انہیں ان کے ہم عصر دانشوروں کے ڈیرے سے بلانے جایا کرتا تھا، باباجی ہمارے گھر کے وزیر خزانہ بھی تھے، ہم دن میں کئی کئی بار ان سے جیب خرچ لیا کرتے ، میں جب بھی باباجی کودیکھنے اس ڈیرے پر جاتا ، مولوی صاحب کے گھر کا چکر بھی لگا لیا کرتا تھا،اس دور میں محلے کے ہر گھر سے مساجد میں کھانے بھجوانے کا رواج تھا، میں جب بھی مولوی صاحب کے گھر جاتا تو ان کی بیوی مجھے طرح طرح کے پکوان کھلاتیں، وہ ایک انتہائی شفیق اور پیار کرنے والی مہربان خاتون تھیں، کبھی کچھ کھلائے بغیر واپس جانے نہیں دیتی تھیں۔ 1960ء میں ہم مزنگ سے اچھرہ نقل مکانی کر گئے، فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا، پیر غازی روڈ سے سعدی پارک تک پیدل دس منٹ میں پہنچا جا سکتا تھا، ہمارے بابا جی کو گو نئے محلے میں اپنی عمر کے دوست مل گئے ، ایک کا نام بابا بھاٹی اور دوسرے کا بابا شریف تھا، بابا بھاٹی ذرا رنگین مزاج تھے ، وہ شمع سینما میں فلم کا آخری شو دیکھنے بھی چلے جایا کرتے تھے اور اگلے دن فلم کا ایک ایک سین بابا جی کو سناتے ، اگر کسی فلم میں ہاشمی صاحب ہوتے تو وہ ہمیں بھی ان کا پورا کریکٹر ڈائیلاگز سمیت سناتے اور خوب ہنستے، جبکہ بابا شریف ہمارے دادا جی کی طرح بہت پرہیزگار اور نمازی تھے، بابا شریف کا تو ان کے انتقال کے بعد مزار بھی بنا دیا گیا جہاں اب ہر سال عرس ہوتا ہے، پیر غازی کے مزار کے عین سامنے۔۔۔ اچھرہ میں شفٹ ہوجانے کے بعد بھی بابا جی مزنگ والے ڈیرے پر روزانہ کی بجائے گاہے بگاہے جانے لگے،مگر میں سعدی پارک سے بہت اداس ہو گیا تھا،مجھے لگتا کہ اچھرے میں آ جانے کے بعد میرا کچھ کھو گیا ہے۔ جب بھی موقع ملتا میں اپنے پرانے محلے میں پہنچ جاتا، ایک ایک گھر میں جا کر سب کو سلام کرتا اور گھروں کی مائوں سے پیار لیتا، اسی عادت کی وجہ سے میرا مولوی صاحب کے گھر جانے کا سلسلہ بھی جاری رہا، حتی کہ انیس سو چھیاسٹھ میں اپنے باباجی کے انتقال کے بعد بھی ،،، ایک دن میں مزنگ بازار میں گھوم رہا تھا کہ کوئی چیز پسند آ گئی ، جو پانچ روپوں کی تھی اور پانچ روپے میری جیب میں نہ تھے، میں مولوی صاحب کے گھر چلا گیا، مولوی صاحب کی بیوی سے پیسے مانگے تو وہ بے چاری شرمندہ ہو گئی، کیونکہ اس زمانے میں ضروری نہیں تھا کہ کسی مولوی صاحب کی بیگم کے بٹوے میں اتنے،، زیادہ،، پیسے ہوتے، ماں کو شرمندہ دیکھ کر پاس کھڑی بیٹی نے کہا کہ اس نے عیدی کے پیسے جمع کر رکھے ہیں جو پورے دس روپے ہیں ، ان میں سے پانچ روپے میں دے دیتی ہوں، وہ لڑکی کمرے میں گئی اور مجھے پانچ روپے لا کر دے دیے۔ کئی دن گزر گئے ، میں پانچ روپے واپس نہ کر سکا، کچھ اور دن گزرے تو شرمندہ رہنے لگا، کچھ اور دن گزر گئے تو پیسے ہونے کے باوجود نہ جا سکا، سوچتا رہا کہ پیسے لوٹانے میں دیر ہو گئی ہے، کہیں مولوی صاحب کی بیٹی اب جانے پرکہیں شرمسار ہی نہ کردے؟ وقت پر لگائے اڑتا رہا، بہت مہینے بیت گئے،ان پانچ روپوں کا بوجھ بڑھتا ہی رہا،اسی طرح کئی سال گزر گئے۔ کئی سال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے رہے،کئی موڑ آتے رہے، کئی حادثے ہوتے رہے، مگر میں ان تمام حوادث کے باوجود آگے بڑھ رہا تھا ، مجھے اس منزل تک پہنچنا تھا جسے میں ٹارگٹ کر چکا تھا، پیدل بہت چلا ہوں لیکن کبھی بائیسکل نہیں خریدی،تین چار سال موٹر سائیکل چلائی پھر گاڑیوں پر آگیا،ان تمام مراحل میں مولوی صاحب کی بیٹی کے پانچ روپے کبھی نہ بھول سکا، کئی بار گاڑی مولوی صاحب کے گھر کے قریب میں سڑک پر کھڑی کی، اس سڑک پر جو ایم اے او کالج کی جانب جاتی ہے، گھنٹہ گھنٹہ، آدھا آدھا گھنٹہ وہاں کھڑا ہوتا رہا، سوچتا رہا، پتہ نہیں کیوں ہمت نہیں پڑتی تھی، ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی، پھر میری شادی ہو گئی، بچے ہوئے، بچے بڑے ہو گئے، وہ پانچ روپے میرے دماغ سے کبھی باہر نہ نکل سکے،اس کے بعد بھی میں درجنوں بار مولوی صاحب کے گھر کے قریب رکا، ارد گرد لوگوں سے مولوی کا حال احوال پوچھ لیتا، پھر کچھ عرصہ اور گزرا تو پتہ چلا کہ مولوی صاحب بیمار ہیں ، موقع مناسب تھا خیریت پوچھنے ان کے گھر جانے کا، مگر نہ جانے کیوں ہمت نہ پڑتی تھی ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ بالآخروہ ایک دن آ ہی گیا ، سالہا سال کی گردش کے بعد، پوری ہمت باندھی اورمولوی صاحب کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا ہی دیا، اندر سے دو نوجوان نکلے،میں نے سوچا،،، یہ دونوں یقینا مولوی صاحب کے بیٹے ہونگے اب شادی شدہ اور بال بچوں والے بھی ہونگے، ان دونوں لڑکوں کے دروازے پر آنے کے بعد چھوٹے چھوٹے تین چار بچے بھی گھر سے نکل کر ان کے پیچھے آن کھڑے ہوئے تھے،، میرے استفسار پر ان لڑکوں نے بتایا کہ مولوی صاحب اندر ہی ہیں لیکن ان کی حالت نہیں کہ وہ کسی کو آسانی سے پہچان لیں،شاید وہ مجھے اپنے گھر کے اندر نہیں لے جانا چاہتے تھے۔ میرے بہت اصرار پر وہ اپنے والد کو سہارا دے کر دروازے تک لے آئے،میں نے اپنی شناخت کرانے کے لئے انہیں بہت حوالے دیے لیکن مولوی صاحب نے کسی طور بھی مجھے نہ پہچانا،ان کی یادداشت ہی باقی نہیں رہی تھی۔ میں نے جھجکتے جھجکتے ان نوجوانوں سے ان کی والدہ کے بارے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ کئی سال پہلے قصور میں ایک ٹریفک حادثہ میں جان بحق ہو چکی ہیں ،،، آپ کی بڑی بہن بھی ہوا کرتی تھیں، ،، میرے اس لرزتے سوال کا جواب ملا،،،،،وہ پچھلے پندرہ سال سے اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ امریکہ میں رہ رہی ہیں،،،،،،،۔۔اب اس واقعہ کو بھی بہت سال ہو گئے،لیکن آج بھی مجھے پانچ روپے کا وہ ادھار یاد ہے ، لیکن خلش نہیں۔ اب بھی سوچتا ہوں کہ مولوی صاحب کی اس نیک دل بیٹی سے ایک دن ضرور ملوں گا، اس کا ادھار بھی چکائوں گا اور ادھار کی واپسی میں تاخیر کی ساری کہانی بھی سنائوں گا اسے، میں اس زمانے کو واپس لائوں گا اور کچھ لمحے اس زمانے میں زندہ بھی رہوں گا، اس سے ملوں گا تو اس کی مرحومہ ماں کے بارے میں بھی ڈھیر ساری باتیں کروں گا۔