اپنی گذشتہ تحریر میں، میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ صحافت کی طالبات کی ایک بڑی تعداد یونیورسٹی کے دوران ہی میڈیا سے متعلق کئی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان غلط فہمیوں کا پیچھا کریں تو ان کے آخری سرے پر کچھ خود پسند اور کچھ احساسِ کمتری کے شکار لوگ ہی ملتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر فیلڈ میں اور ہر جگہ ملتے ہیں۔ شائد ان کی زندگی میں اتنی محرومیاں ہوتی ہیں کہ یہ دوسرے لوگوں کو بھی آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے۔
ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود میڈیا میں ہوتے ہیں مگر جب ان سے کوئی نوکری کے حصول میں مدد مانگتا ہے تو یہ اسے میڈیا کا ایسا بھیانک روپ دکھاتے ہیں کہ انسان ڈر کے مارے ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ صاحب! اتنا ہی میڈیا برا ہے تو آپ وہاں کیوں بیٹھے ہیں تو یہ اپنی مجبوری کی ایسی دردناک داستانیں سنائیں گے کہ آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔
ایسے افراد کی پھیلائی گئیں غلط فہمیوں کی وجہ سے صحافت کی طالبات کی ایک بڑی تعداد تعلیم مکمل ہونے کے بعد کسی میڈیا ہائوس میں نوکری نہیں کرتی یا کافی سال گزرنے کے بعد جھجھکتے ہوئے اس میدان میں قدم رکھتی ہیں تب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی کی غلط باتوں کی وجہ سے اپنے کرئیر کے کئی سال ضائع کر دیے۔
کچھ لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی محتاط رہنے کو ترجیح دیتی ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن وہ اس احتیاط میں اتنی آگے نکل جاتی ہیں کہ کسی ادارے میں دو یا تین سال کام کرنے کے باوجود بھی ان کی سلام دعا دو چار لوگوں کے سوا کسی سے نہیں ہوتی۔ یہ صبح دفتر آتی ہیں، سیٹ پر بیٹھتی ہیں اور وقت پورا ہونے پر چپ چاپ نکل جاتی ہیں۔ یہ رویہ بھی غلط ہے۔ اپنی نوکری کو اپنی سزا نہ بنائیں بلکہ اسے اپنی زندگی کا وہ حصہ بنائیں جو آپ کی خوشی کا باعث ہو۔ دفتر کے لوگوں کے ساتھ ایک اچھا تعلق بنائیں۔ یہ تعلق نہ صرف آپ کو اپنی فیلڈ کے متعلق مزید جاننے کا موقع دے گا بلکہ آگے بڑھنے کے مواقع بھی فراہم کرے گا۔
دو ماہ قبل میرے دفتر میں دو لڑکیاں انٹرن شپ کے لیے آئیں۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ اس کا ہم جماعت جو کہ اسی ادارے میں کام کرتا ہے، اُس سے جب اس نے یہاں انٹرن شپ کے حوالے سے بات کی تو اس نے اسے بتایا کہ یہاں کا ماحول تو خاص طور پر لڑکیوں کے لیے بہت خراب ہے۔ قدرت کی طرف سے ایک ماہ بعد اس لڑکی کو یہاں سے کال موصول ہوئی اور اس نے اگلے ہی روز سے یہاں انٹرن شپ شروع کر دی۔ دس پندرہ روز بعد استقبالیہ پر اس لڑکی کا اسی لڑکے سے ٹاکرہ ہوا، وہ اسے دیکھ کر بوکھلا گیا۔ پوچھنے لگا آپ یہاں کیسے؟ اس نے بتایا، انٹرن شپ کر رہی ہوں۔ وہ آگے سے بولا، جی جی بہت اچھا کیا اور بھاگ لیا۔
اسی طرح کئی ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں جناب شیخی بھگار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ یونیورسٹی سے ہر نئے گریجویٹ ہوئے طالبعلم کو یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ میں فلاں فلاں ادارے میں کام کر چکا ہوں، میرے فلاں فلاں جگہ تعلقات ہیں، میں آپ کو دنوں میں مشہور کروا دوں گا۔ ان کی باتوں میں آنے سے پہلے سوچیں کہ وہ اگر اتنی پہنچی ہوئی شخصیت ہیں تو ان کے پاس اتنا وقت کیسے ہے کہ وہ آپ سمیت ہر ایک کی مدد کرنے کو حاضر ہیں؟ آپ ان کو گوگل کر کے دیکھ لیں، گوگل کو بھی ان کا نام نہیں معلوم ہوگا۔ دراصل ان لوگوں کو اپنے گرد ایسے لوگ رکھنے اچھے لگتے ہیں جو ان کو ایک راہنما یا استاد کے طور سے دیکھیں، ان سے مدد مانگیں لیکن اصل میں یہ حضرت ایسا کچھ کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔
ایک اچھا صحافی بننا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اس کے لیے آپ کو سوائے محنت کے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ پڑھنے، سوچنے اور لکھنے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔ جو تحریر آپ کے ہاتھ لگے اسے پڑھیں اور اس سے سیکھیں۔ لکھنا اپنی عادت بنائیں۔ جو موضوعات آپ کے لیے حساس ہیں ان پر لکھیں یا کسی اور میڈیا کے ذریعے ان کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
آپ کو فوٹوگرافی کا شوق ہے تو تصاویر کھینچیں، ویڈیوز پسند ہیں تو شارٹ فلمز یا ڈاکیومنٹریز بنائیں۔ انہیں مختلف فلم فیسٹیولز میں بھیجیں۔ آپ کو اشتہار اچھے لگتے ہیں تو گرافک ڈیزائننگ سیکھیں اور روزانہ مختلف سافٹ وئیرز کا استعمال کرکے اپنی سیکھی ہوئی صلاحیتوں کو مزید نکھاریں۔ آپ کا رجحان میڈیا ریسرچ کی طرف ہے تو ریسرچ پیپرز لکھ کر مختلف جرنلز کو بھجوائیں۔
اپنے اوپر بھروسہ کر کے ہی آپ صحافت کے میدان میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کو کہے کہ وہ آپ کو راتوں رات مشہور کر سکتا ہے تو اسے کہیں کہ جناب! اس ‘مشہوری’ کی ضرورت مجھ سے زیادہ آپ کو ہے۔ میں اپنے لیے کافی ہوں۔ آپ میری مدد کرنے کی بجائے اپنی مدد کریں.