لاہور(نیوز ڈیسک) معروف صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ دھرنے کے دوران مولانا فضل الرحمن نے دو مواقع گنوا دئیے ورنہ ملک میں نئے انتخابات ہو جاتے۔تفصیلات کے مطابق سینئیر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں میں مولانا فضل الرحمن کو احساس ہو گیا کہ ان کے ساتھ
ساتھ ہاتھ ہو گیا جیسا کہ نا تو انہیں ان کے حزب اختلاف کے اتحادی بھرپور قوت کے ساتھ ملے اور نا ہی حکومت بے چین نظر آئی۔ان کی 13 نومبر کو خارجہ حکمت عملی ویسے ہی پراسرار رہی جیسے وفاقی دارلحکو مت میں ان کا داخلہ جیسا کہ ان کی جماعت جے یو آئی ف پلان بی کے طور پر ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور دھرنے رہے۔ تاہم سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت اور بیرون ملک سفر کے حوالے سے گذشتہ ہفتے کی سیاست پیش رفت کے باعث پلان کا دوسرا حصہ اب تک میڈیا کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پایا،ان کی تین ماہ کی تیاریوں اور درجن ملین مارچ کے بعد مولانا نے دو مواقع گنوا دئیے۔پہلا یہ کہ اپنے اتحادی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مارچ یا اپریل 2020 تک اسلام آباد مارچ ملتوی کرنے کی تجویز مان لینی چاہئیے تھے۔ دوسرا یہ کہ عدالتی کمیشن یا پارلیمانی کمیشن سے با آسانی فیصلہ کروانا چایئیے تھا۔جس کے لیے حکومت بھی تیار تھی اور حتی کہ تازہ انتخابات کے لیے تیار تھی اگر کمیشن انتخابات 2018ء دھاندلی زدہ قرار دے دیتا۔اس کا مطلب وزیراعظم عمران خان کا استفعیٰ تھا۔مظہر عباس مزید لکھتے ہیں کہ جے یو آئی ایف اور مسلم لیگ ق نئے الائنس کا حصہ ہو سکتے ہیں جیسا کہ ان کی ملاقاتوں میں موجود بحران سے بھی کہیں زیادہ باتیں ہوئی تھیں۔اس سب کی وجہ سے تنہا پرواز کا فوری خاتمہ ہوا اور حقیقت یہی باقی رہتی ہے کہ یہ نا صرف مولانا کے لیے بلکہ پوری حزب اختلاف کے لیے دھچکا تھا جو بغیر شامل ہوئے بھرپور وقت سے مولانا کی سرگرمیاں دیکھ رہی تھی۔