لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے تنقیدوں کے تیر برداشت کرتے ہوئے اپنے وزیر خزانہ اسد عمر کو فارغ کر دیا اور کابینہ میں وزراء کے محکموں میں بھی تبدیلی کر دی ہے۔ وزیر خزانہ کو صرف آٹھ ماہ کی مدت کے بعد تبدیل کیا گیا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اسد عمر کی پالیسیوں اور نامور کالم نگار علی حسن روزنامہ پاکستان کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکمت عملی کی وجہ سے ملک اور عوام کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچا۔ وزیر خزانہ کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کا گمان ہے کہ ان کا اگلا ہدف خود وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم کے سوچنے کی بات ہے کہ انتخابات سے قبل امیدواروں کی نامزدگی اور اب بعض وزراء کی تقرری کے بعد تحریک انصاف کہاں غائب ہوگئی؟ 1970 والی پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی 1973 ء سے ہی یہ ہی کچھ ہونا شروع ہو گیا تھا اور 1977 ء میں تو 1970ء والی پیپلز پارٹی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی تھی ، جس وزیراعظم کو رات دن ’’ سلیکٹیڈ‘‘ وزیراعظم کہا جاتا ہو، اسے ہر قیمت پر فارغ کرانا ہی ان کے مخالفین کا مقصد ہے۔ جولائی2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کے فوری بعد ہی سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو ان کے ساتھ پیش آنے والا حادثہ برداشت نہیں ہو سکا۔ جیسے تیسے کر کے عمران خان نے حکومت بنائی۔ پنجاب اور خیبر پخٰتون خوا میں تحریک انصاف، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل حکومت بنی۔ حکومتوں کے قیام کے بعد قومی احتساب بیورو جو پہلے سے بر سر کار تھا، زیادہ ہی متحرک ہو گیا ۔ ماضی کی دو حکمران جماعتوں کے سربراہوں سمیت ان کے رفقاء کی ٹیم کے خلاف تحقیقات کا عمل شروع ہو گیا۔ جس ملک میں پیدا وار ی صلاحیتوں کا بحران ہو، صنعتی ادارے بند ہو گئے ہوں، اسمگلنگ کے سامان کی کھلی تجارت ہو تی ہو، کسٹم عملہ کو کھلے عام رشوت دی جاتی ہو ،لیکن ٹیکس نہ دیا جاتا ہو، جس ملک میں حکومت کو ٹیکس دینے کا رجحان ہی نہ ہو بلکہ بجلی اور گیس بھی چوری کر کے اپنے کاروبار کے فروغ اور گھریلو استعمال میں لایا جاتا ہو، ہر ہر طریقہ سے ٹیکس کو چوری کیا جاتا ہو، سرکاری نلکوں سے آنے والے پانی کا بل نہ دیا جاتا ہو، پینے کا پانی ذاتی استعمال کے لئے خریدا جاتا ہو، اس ملک میں معیشت کی حالت ویسی کیوں نہیں ہوگی جیسی پاکستان کی معیشت کی ہے۔ اسد عمر سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اس بیمار معیشت کو کھڑا کر دیں گے، عبث تھا۔ صرف اسد عمر ہی نہیں بلکہ ان کی جگہ مقرر کئے جانے والے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے بس کی بھی بات نہیں ہوگی۔ مزید قرضے حاصل کر کے معیشت کو سہارا دیا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں جن جماعتوں نے حکومت چلائی ، ان سے کہا جائے کہ نئے قرضے لئے بغیر حکومت چلائیں ، مہنگائی پر قابو پائیں تو وہ بھی آج کے حالات کے پیش نظر کانوں کو ہاتھ لگا ئیں گی۔ باہر سے بیٹھ کر تنقید کرنا کہ روٹی کچی پکی ہے ہے، آسان ہوتا ہے، تنور پر بیٹھ کر روٹی پکانے والا ہی بہتر جانتا ہے کہ روٹی کچی کیوں رہ گئی۔پاکستان کے تاجر منافع خوری کی ایسی بیماری کا شکار ہیں جس کا علاج قانونی کارروائی ہے۔ دودھ، دہی، سبزیوں، دالوں، ہری مرچوں وغیرہ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا اس میں بھی ڈالر کا عمل دخل ہے؟ حفیظ شیخ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تن خواہ دار ملازم ہیں، جب ضروت پڑتی ہے انہیں ادھر سے ادھر سر کا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں معین قریشی کو جس کے پاس قومی شناختی کارڈ تک نہیں تھا، تھونپا گیا تھا، شوکت عزیز جیسے ناکارہ موقع پرست شخص کو لایا گیا تھا، ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو سوائے ناکامی ، اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ حفیظ شیخ جس دور میں سندھ میں تھے تو سندھ کے مالی حالات بہتر کرنے کے لئے ان کا ’’کارنامہ‘‘ یہ تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں ہر طرح کی بھرتی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسپتالوں میں نرسیں نہیں تھیں، جیلوں میں چوکیدار نہیں تھے، یہ کون سا بچت کا نسخہ تھا۔ بچت کی ایسی مہم چلائی گئی کہ تھانوں میں کاغذ نہیں ہوتا تھا، جیلوں میں قیدیوں کی خوراک کا بندوبست نہیں ہو تا تھا، اسپتالوں میں دوائیں نہیں ملتی تھیں۔ جب وفاق میں گئے تو قرضے ہی قرضے لئے گئے اور ملک کو چلایا گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ تحریر حفیظ شیخ کے بارے میں گردش میں ہے۔ یہاں منقول ہے حفیظ شیخ بالائی سندھ کے رہنے والے ہیں ،لیکن اپنی زندگی امریکا میں گزاری ورلڈ بینک میں ملازمت کرتے رہے…پرانی بات ہے انکے بھائی کی شادی تھی ، شادی میں شرکت کے لئے وہ بھی آئے ہوئے تھے ۔ کھانے کا معاملہ باورچی سے ڈسکس ہو رہا تھا، اس نے مہمانوں کی تعداد دیکھ کر کھانے کی تعداد بتا دی ۔ حفیظ شیخ بیچ میں کود پڑے …بولے تم لوگ آخر کس حساب سے کھانا بناتے ہو، پھر خود ہی حساب لگایا کہ ایک شخص ایک پاؤ سے زیادہ نہیں کھا سکتا مہمانوں کی کل تعداد سے ضرب دے کر جو حساب بتایا وہ باورچی کے حساب سے آدھے سے کم تھا، لوگوں نے بہت سمجھایا کہ باورچی اپنے کام کا ماہر ہے ،لیکن کیوں کہ یہ ورلڈ بنک میں کام کرتے تھے اس لئے ان ہی کا حساب چلا ۔ خیر مہمان آ گئے انتظام کرنے والوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرد مہمانوں کو نمٹا دیں، خواتین دوسری شفٹ میں کھا لیں گی.۔ ہوا یہ کہ کھانا مردوں کو ہی پورا نہ پڑا…منتظم پریشان ہو گئے اور پھر سب نے گاڑیاں نکالیں، گھر کے سارے بھگونے برتن اٹھاے اور سکھر کے ہوٹلوں سے بریانی قورمہ وغیرہ جمع کرتے رہے اور پھر خواتین کو کھلا سکے …انکے عزیز بتاتے ہیں کہ ہم ایک طویل عرصے حفیظ صاحب کے حساب کا مذاق بناتے رہے اور یہ صرف شرمندگی سے مسکراتے رہے ‘‘ ۔ جو قوتیں حفیظ شیخ کو سامنے لا ئی ہیں ، انہوں نے اس لحاظ سے اس ملک کے ساتھ اچھا نہیں کیا ہے کہ وہ معیشت کو مزید قرضوں پر ہی چلائیں گے۔ کیا پاکستان کسی طور پر بھی مزید قرضوں کا متحمل ہو سکتا ہے؟ حفیظ شیخ کو اسلام آباد لانے کا ایک مقصد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ کسی بھی روز قائم مقام وزیر اعظم ہو سکتے ہیں۔ کراچی کے ایک موقئر بزنس کے انگریزی اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ پاکستان میں نہایت اہمیت کی حامل ایک شخصیت نے چوہدری نثار سے اپنی خواہش پر ملاقات کی ہے ، یہ ملک بہت پہلے سے د ہشت گردی کا شکار ہے، اس کی معیشت میں کوئی دم خم نہیں ہے۔ اس کو اپنے سے پانچ گنا زیادہ بڑے ملک سے دائمی دشمنی کا سامنا ہے۔ دونوں کے درمیاں دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں، دوسری جنگ میں تو پاکستان کا بڑا علاقہ ہی اس سے علیحدہ کرا دیا گیا۔ پاکستان میں سخت قسم کے ضوابط کے تحت ٹیکس وصول کرنے کی کارروائی ہونا چاہئے، اسمگلنگ کی کسی قیمت پر اجازت نہیں ہونا چاہئے اور کسٹم حکام کو پابند کرنا چاہئے کہ وہ ایک سوئی تک ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر سرکاری حدود سے باہر نہیں جانے دیں۔ اسی صورت میں پاکستان معاشی طور پر پنپ سکے گا۔ دوسری صورت میں تو اس کا کیل کانٹا تک گروی ہو جائے گا اور دنیا کا ایک ناکارہ، کمزور، قرضوں کے بوجھ تلے دبا اور مزید قرضوں کا محتاج ملک بن کر رہے گا۔ بانس اور بانسری کے بغیر زندہ کس طرح رہاجائے گا۔