ایک بیس بائیس سالہ نوجوان ناہید سپر مارکیٹ میں داخل ھوا، کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ھوا کہ کوئی خاتون اسکا تعاقب کر رہی ھے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ھوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ھو گیا، لیکن وہ عورت مستقل اسکا پیچھا کر رہی تھی، اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا، وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا، ماں جی خیریت ہے؟عورت: بیٹا آپکی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ھے، میں نہ چاھتے ھوئے بھی آپکو اپنا بیٹا سمجھتے ھوئے آپکےپیچھے چل پڑی اور ابھی آپ نے مجھے امی جان کہا تو میرے دل کے جذبات فرطِ محبت و خوشی سے لائق بیان نہیں‘عورت نے یہ کہا اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ھو گئے‘نوجوان: کوئی بات نہیں ماں جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں‘عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے ماں جی کہو گے؟ نوجوان نے اونچی آواز سے کہا جی ماں جی لیکن خاتون نے گویا نہ سنا ہو ‘نوجوان نے پھر بلند آواز سے کہا جی ماں جی۔۔عورت نے سنا اور نوجوان کے دونوں ہاتھ پکڑ کے چومے، اپنی آنکھوں سے لگائے اور روتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئی‘نوجوان اس منظر کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور وہ اپنی خریداری پوری کیے بغیر واپس چل دیا‘کاو¿نٹر پر پہنچا تو کیشیئر نے دس ہزار کا بل تھما دیا‘نوجوان نے پوچھا دس ہزار کیسے؟ کیشیئر : آٹھ سو کا بل آپکا ہے اور نوہزار دو سو آپکی والدہ کا، جنہیں آپ ابھی امی جان امی جان کہہ رہے تھے‘وہ دن اور آج کا دن ہے نوجوان اپنی حقیقی امی کو بھی خالہ جان کہتاہے۔