تحریر: شاہ بانو میر
عبدل الستار ایدھی پاکستان کا وہ خوبصورت چہرہ جو ذات پات برادری رنگ نسل تفرقات سے بالاتر صرف اللہ کی مخلوق کی بھلائی کیلئے آخری سانس تک کوشاں رہے۔
2009 میں پیرس میں مدن جیت یونیسکو ایوارڈ کیلئے ان کی پیرس آمد اور یونیسکو کے آڈیٹوریم میں فقید المثال خراج تحسین کا منظر ناقابل بیان ہے ٬ پوری دنیا کا میڈیا اور بڑی بڑی شخصیات سانس روکے ان کی زندگی اور کام پر مبنی داکو مینٹری کو دیکھ رہے تھے٬ کہیں گلی سڑی لاشیں بغیر کسی نفرت کے اٹھا رہے ہیں ق کہیں سیلاب زدگان کیلئے کام کروا رہے ہیں٬ کہیں جھولے میں پڑے نومولود بچوں کو سینے سے لگا رہے ہیں٬ کہیں گھروں سے تشدد کر کے نکالی خواتین اور ان کے بچوں کے ساتھ کسی مشفق باپ کی طرح پیش آ رہے ہیں۔
کہیں گھروں سے بے دخل کئے گئے بوڑھے والدین کیلیۓ انتظام کروا رہے ہیں ٬ کہیں ذہنی امراض میں مبتلا خواتین و حضرات کیلئے فکر مند٬ کہیں بھیک ما،نگ کر اخراجات کو پورے کرتے دکھائی دیتے ہیں٬ فلم نہیں تھی میرے ملک کا وہ چہرہ تھا جسے ہم بالعموم چھپا کر رکھتے ہیں٬ ایک ایک سین ان کا قد بلند کر رہا تھا پاکستان پر لگا دہشت گردی کا دھبہ مٹ رہا تھا۔
دم سادھے سب ناقابل فراموش کام دیکھ رہے تھے اور وہ بھی ایک پاکستانی؟ ڈاکومینٹری ختم ہونے کے بعد کھڑے ہوئے اور کئی منٹ تک تالیوں سے ہال گونجتا رہا٬ یہ اقرار تھا پاکستان کے اس ہمدرد انسان نما فرشتے کی خدمات کا٬ یہ اقرار تھا کہ میرا ملک دہشت گرد نہیں میرا ملک ہمدرد سوچ رکھتا ہے٬ ایدھی صاحب اس وقت بھی علیل تھے ٬ اور وہیل چئیر پر تھے ٬ پروگرام ختم ہوا تو ہم خواتین ان کے پاس گئیں اور مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ اس ملیشیا کے کالے سوٹ میں ملبوس سادہ سے انسان سے کچھ باتیں کر سکوں ٬ مزاج میں عاجزی زبان میں سادہ الفاظ اور بات صرف یہی کہ کیوں لڑتے ہو؟ کیوں نفرت کرتے ہو؟ انسان بنو دوسرے کو فرقے میں رنگ و نسل میں ذات پات میں نہ بدلو اللہ نے انسان بنایا ہے تو بس اس کا احساس کرو ٬ سادہ سے الفاظ اور معنی اتنے لا محدود سبحان اللہ زندہ وہی رہے گا جو لوگوں میں خیر بانٹے گا٬ ایدھی صاحب جیسے لوگ سال ہا سال نہیں صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔
ان کا نام ان کا کام صرف پاکستان میں نہیں ہر ہمدرد انسان پوری دنیا میں یاد رکھے گا ٬ نہ تصنع نہ بناوٹ نہ شہرت نہ لوٹ مار کے منصوبے عوام میں رہنے والے عوامی اداروں میں علاج معالجہ کروا کے عام شہری کی طرح کسی سے کوئی گلہ شکوہ کئے بغیر اپنی ذات کا مقصد سمجھ کر خود کو انسانیت کیلیۓ وقف کرنے والے یہ قوم کے وہ عظیم باپ ہیں جن کی مثال قائد کے بعد صرف ان کی ذات میں دیکھی٬ پاکستانی پرچم میں لپٹا ہوا ان کا تابوت بتا رہا تھا اس ملک کیلئے خدمت خواہ جان دینے والے جانباز کی ہو یا انسانیت کی خدمت کرنے والے ایدھی کی پاکستان وہی تکریم دیتا ہے جس کا وہ اہل ہو ٬ آج ایدھی صاحب حقدار ٹھہرے ٬ ان کے جنازے میں افواج پاکستان کے تینوں سربراہان کی چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ ٬ صدر پاکستان کی٬ معروف سیاسی سماجی شخصیات کی موجودگی خود ان شخصیات کا قد بڑھا رہی ہے کہ ایسی عظیم ہستی عہد ساز شخصیت کا جنازہ پڑھنے کی سعادت ملی۔
مگر وہ لوگ جن میں ایدھی صاحب ہمیشہ موجود رہے ان کی کمی محسوس ہوتی رہی جنازے میں پروٹوکول کا شکار عام لوگ نہیں پہنچ پائے ٬ مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ توپوں کی سلامی کے ساتھ ان کی تدفین بتا رہی ہے کہ لوگوں کو بغیر کسی صلے انعام کے دفن کرنے والا وقت رخصت اسی شاندار انداز کا مستحق تھا٬ قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے ٬ خاموشی سے خدمت خلق کرنے والا تعریف و توصیف سے نالاں تھا اور یہی عظمت انسانیت تھی جو انہیں اللہ پاک نے انہیں عطا کی۔
کاش ہم لوگ ان سے صرف یہ سیکھ لیں کہ کسی کی بھلائی کرنے کیلئے جزبوں کی ضرورت ہے سچائی کی ضرورت ہے محنت کی ضرورت ہے ٬ ہر پاکستانی آج اگر ایدھی بن جائے تو ناقابل تسخیر پاکستان کا قیام کوئی نہیں روک سکتا٬ عظیم انسان ان پڑھ تھا مگر آج پورا ملک اپنے مکتب فکر سے یکجا کر گیا٬ جنازے میں افواج پاکستان سیاستدان سماجی رہنما اور دیگر شعبہ زندگی سے ایک صف میں کھڑے پیغام دے رہے تھے کہ آج بھی سچائی ہو اخلاص ہو تو اتنی طاقتور ہے کہ سب اختلافی سوچوں کو ایک جگہ یکجا کیا جا سکتا ہے٬ ئیے ان کے مکتب فکر کو سمجھیں اور بنائیں انسانیت پر مبنی “” نیا پاکستان “”۔
تحریر: شاہ بانو میر