پیرس (اے کے رائو ) جس سال حکیم محمد سعید شہید ہوئے ،اس سال عبدالستار ایدھی پیرس آیے تھے. ہمیں ان کی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوا . میں نے ان کو کہتے سنا کہ میں نے تو حکیم صاحب سے کہا تھا کہ آپ بھی ملک سے نکل چلو مگر وہ نہیں مانے ،تاریخ شاہد ہے حکیم صاحب اسی سال شہید کر دیے گیے . ان کا اشارہ اس دھمکی کی جانب تھا جو کراچی کے نامعلوم افراد کی جانب سے ان کو اور حکیم سعید کودی گئی تھی۔
ایدھی صاحب کے ساتھ فیصل ایدھی بھی تھے ، ایدھی صاحب کا اسرار تھا کہ مجھے ایفل ٹاور لے چلو ، جبکہ لوگ ان سے ملانا چاہتے تھے، مگر وہ ایفل ٹاور جانا چاہتے تھے. میری ناقص عقل نے سوچا آدمی کتنا ہی بڑا ہو دنیا دیکھنے کی خواہش برابر ہوتی ہے۔
میں علامہ حافظ اقبال اعظم ، محمد نعیم چوھدری ، طارق چوھدری ،صوفی نیاز ، فیصل ایدھی ، فیصل ایدھی کے کولیگ نام یاد نہیں رہا اور محترم عبدالستار ایدھی ایفل ٹاور کے لیے روانہ ہوئے راستہ بھر ایدھی صاحب سے گفتگو ہوئی 40 منٹ کے اس سفر میں میں ان کے کردار گفتار اور ان کی سوچ کا جائیزہ لیتا رہا. راستے میں آنے والی فن تعمیر کے شاہکار قابل دید عمارتوں پر نعیم چوھدری کی بریفنگ جاری رہی مگر ایدھی صاحب نے کسی ایک کا بھی نوٹس نہیں لیا اور یہی حال فیصل ایدھی کا بھی تھا۔
ایفل ٹاؤر پہنچنے پر میں نے گاڑی ٹاؤر کے پاؤں میں کھڑی کی خیال تھا کہ ان سب کے اتار کر پھر گاڑی کی پراپر پارکنگ کروں گا. میں نے گاڑی سے اتر کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ایدھی صاحب کو اترنے کا کہا مگر انہوں نے ایفل ٹاور کو سر اٹھا کے بھی نہیں دیکھا صرف ہجوم پر ایک نظر ڈالی اور خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے غلط کہا تھا کہ ایفل ٹاور پر اپنے لوگ ہوتے ہیں. اور انہوں نے فیصل ایدھی کو بھی گاڑی سے اترنے سے منع کیا. اور مجھے کہا کہ مجھے وہاں لے چلو جہاں اپنے لوگ ہوتے ہیں . اور ہم ان کو منھاج القرآن اسلامک سنٹر فرانس لے آئے۔
وہاں پر ایک مختصر سی نشست میں ایدھی فاونڈیشن کے لیے 30 ہزار سے کچھ زائد رقم جمع ہوئی جس کا امین ایدھی صاحب نے مجھے مقررکیا اور اللہ پاک کے فضل وکرم سے امانت اپنے حقداروں کو پہنچی۔