میری طالب علمی کے دو سال گجرات میں گزرے۔
وہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا‘ حکومتی اختیارات عسکری حکمرانوں کے پاس تھے ‘ہر ضلع میں ایک نا معلوم افسر ہوتا تھا‘ وہ افسر کسی بھی وقت کسی بھی حکومتی حکم کو تبدیل کر سکتا تھا اور کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا‘ گجرات میں درجن بھر سینما تھے ‘جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کی وجہ سے فلم انڈسٹری زوال کا شکار تھی‘ سینما اجڑ رہے تھے‘ مالکان خسارے میں تھے‘ مالکان نے خسارا پورا کرنے کے لیے فحش فلمیں چلانا شروع کر دی تھیں۔
حکومت مالکان کے اس گھناؤنے دھندے سے واقف تھی لیکن یہ انھیں روکتی نہیں تھی‘ کیوں؟ کیونکہ مالکان غیر جماعتی الیکشنوں کے ذریعے منتخب ہوکر سرکاری پارٹی میں شامل ہو چکے تھے اور ان نئے عوامی نمایندوں کو ہر ضلع کے نامعلوم افسروں کی حمایت حاصل تھی چنانچہ لوکل پولیس‘ لوکل عدلیہ اور لوکل انتظامیہ کو حکم تھا آپ ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گے‘ یہ حکم گرین کارڈ تھا اور گرین کارڈ ہولڈرز اس حکم کا جی بھر کا فائدہ اٹھا رہے تھے‘ یہ لوگ شہروں میں غیرقانونی اسلحہ بھی پھیلا رہے تھے‘یہ ہیروئن اور چرس بھی بیچتے تھے۔
یہ سرکاری زمینوں پر قبضے بھی کرتے تھے‘ یہ لوگوں کو لوٹتے بھی تھے اور یہ اپنے سینما گھروں میں فحش فلمیں بھی چلاتے تھے‘ گجرات کے سینما گھر اس معاملے میں بہت بدنام تھے‘ یہ ہفتے میں دو دن کوئی غیر معروف فضول سی انگریزی فلم چلاتے تھے‘ ہال کھچا کھچ بھر جاتا تھا تو یہ لوگ فلم کے عین درمیان پانچ سات منٹ کی ’’پورنوگرافک‘‘ فلم چلا دیتے تھے‘ لوگ یکسوئی کے ساتھ وہ پانچ سات منٹ انجوائے کرتے تھے اور جوں ہی دوبارہ انگریزی فلم شروع ہوتی تھی وہ آہستہ آہستہ کھسک جاتے تھے یہاں تک کہ آخر میں صرف خالی کرسیاں بچ جاتی تھیں۔
سینما مالکان عوام کو لبھانے کے لیے ایسی فلموں کے بڑے پوسٹرز بنواتے تھے‘ پوسٹروں پر فلم کا انگریزی نام اردو میں لکھ دیا جاتا تھا‘ عوام کو فلم کے مواد کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے ہمراہ سائیڈ پروگرام‘ ہمراہ منورنجن‘ ہمراہ دل پشوری اور ہمراہ قاتل حسینہ جیسے الفاظ بھی لکھ دیے جاتے تھے‘ یہ الفاظ شائقین کے لیے یہ پیغام ہوتے تھے کہ آپ اس انگریزی فلم کو صرف انگریزی فلم نہ سمجھیں آپ کو اس میں وہ سب کچھ ملے گا آپ جسے سب کچھ سمجھتے ہیں چنانچہ لوگ دیوانہ وار سینما پر پل پڑتے تھے۔
میں ایک دن عینک ٹھیک کرانے کے لیے شہر گیا‘ کالج کے راستے میں گجرات کا ایک مشہور سینما پڑتا تھا‘ سینما میں انگریزی فلم ہمراہ سائیڈ پروگرام لگی ہوئی تھی‘ فلم کا جہازی سائز کا پوسٹر سینما کے ماتھے پر چمک رہا تھا‘ فلم کا نام ’’ابو دا لاء‘‘ تھا‘ پوسٹر بنانے والے نے عوام کی سہولت کے لیے فلم کا نام اردو میں بھی لکھ دیا تھا‘ یہ اردو میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا ’’ابو دا لاء‘‘ سینما کے سامنے آٹھ دس سال کے دو بچے کھڑے تھے۔
بچوں کے کندھوں پر اسکول بیگ لٹک رہے تھے‘ وہ یقینا چھٹی کے بعد اسکول سے گھر جا رہے تھے‘ میں بھی ان کے پاس کھڑا ہو گیا‘ ایک بچے نے دوسرے کو کہنی ماری اور کہا‘ یار یہ فلم ’’ابو (والد) دا لاء‘‘ مجھے اچھی لگ رہی ہے‘ ہم اتوار کو یہ فلم دیکھتے ہیں‘ دوسرے بچے نے پوسٹر دیکھا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر بولا ’’یار پیسے کہاں سے آئیں گے‘‘ وہ اس کے بعد پیسوں کی فراہمی کی پلاننگ میں لگ گئے اور میں ’’ابو دا لاء‘‘ کو انجوائے کرنے لگا‘ میں آج تیس سال بعد بھی تین لفظوں کے اس فقرے کو انجوائے کرتا ہوں۔
مجھے ان نامعلوم بچوں نے معصومیت میں ملک کی سب سے بڑی حقیقت سمجھا دی تھی اور وہ حقیقت تھی ’’ابو دا لاء‘‘۔ میں پچھلے تیس برسوں سے اس حقیقت کا مطالعہ بھی کر رہا ہوں اور مشاہدہ بھی‘ ہمارے ملک میں اگر کوئی لاء ہے تو وہ ابو دا لاء ہے اور جس طرح ہر شخص کا کوئی نہ کوئی ابو ضرور ہوتا ہے بالکل اسی طرح ہمارے ہر ادارے اور ہر بڑی شخصیت کا کوئی نہ کوئی ابو ہے اور ہمارا اور ہمارے اداروں کا قانون خواہ کتنا ہی مضبوط اور جامع کیوں نہ ہو جائے ملک میں قانون بہرحال ابو کا ہی چلتا ہے اور ابو کا ہی چلے گا اور یہ سلسلہ پچھلے ستر برسوں سے جاری ہے۔
ہمارے ابو جب انتقال کر جاتے ہیں یا پھر ریٹائر ہو جاتے ہیں تو ہم خود ابو بن جاتے ہیں اور ہم بھی وہی کرتے ہیں جو ہمارے ابو کیا کرتے تھے یعنی اپنا ہی قانون‘ اپنی ہی رٹ اور اس رٹ کو منوانے کا اپنا ہی طریقہ اور بس۔آپ کسی دن کسی خاموش کونے میں بیٹھ جائیں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچنا شروع کر دیں‘ ہم اور ہمارا نظام کیا ہے؟ کیا ہم سب پر کوئی نہ کوئی ابو نہیں بیٹھا ہوا اور کیا اس کا قانون ہم سب کے قانون پر بھاری نہیں‘ ہم نے عوام کے لیے قانون بنایا‘ اس قانون کا ابو پولیس اور سول انتظامیہ ہیں۔
انتظامیہ کا ابو عوامی نمایندے‘ پارلیمنٹ اور حکومت ہے‘ حکومت کا ابو عدالتیں ہیں‘ عدالتوں کا ابو فوج ہے اور فوج کا ابو نظریہ ضرورت ہے چنانچہ ہمارے پورے نظام کا اصل والد نظریہ ضرورت ہے‘ یہ والد جب بھی تبدیل ہوتا ہے اوپر سے لے کر نیچے تک ہمارا سارا لاء بدل جاتا ہے‘ افغان جنگ کے دوران مجاہدین ہمارا نظریہ ضرورت تھے‘ یہ اس وقت ہمارے ابو ہوتے تھے اور ان کا ابو امریکا تھا چنانچہ امریکا ہم سب کے مقدر کا فیصلہ کرتا تھا۔
نائین الیون کے بعد ہمارا ابو تبدیل ہو گیا‘ ہمارا نظریہ ضرورت ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ہو گیا اور اس نظریہ میں مجاہدین کی ضرورت نہیں تھی لہٰذا ہم نے لاء بدل دیا‘ ہمارے آج کے نظریہ ضرورت میں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان غیر ضروری ہیں چنانچہ یہ لوگ ’’ابو دا لاء‘‘ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں‘ یہ تمام ابو جلد فارغ ہو جائیں گے اور ان کی جگہ نئے ابو آ جائیں گے اور وہ ابو بھی نظریہ ضرورت کو اپنا والد مان لیں گے اور یوں ابو دا لاء چلتا رہے گا۔
میں نے کل صبح ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک دلچسپ منظر دیکھا‘ میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی تھی‘ پیشی سے تھوڑی دیر قبل رینجرز آئے اور انھوں نے عدالت کی سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لے لی‘ میڈیا کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا‘ وفاقی وزراء‘ ایم این ایز اور پاکستان مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق جیسے سینئر لیڈرز کو بھی عدالت میں داخل نہیں ہونے دیا گیا‘ وزیر داخلہ احسن اقبال اور داخلہ کے وزیر مملکت طلال چوہدری کو بھی گیٹ پر روک دیا گیا اور وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث بھی باہر پھنس گئے۔
آپ یہاں یہ حقائق بھی ملاحظہ کیجیے‘ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں‘ وزیر داخلہ ان کے باس ہیں لیکن وزیر داخلہ نے رینجرز کو عدالت کی سیکیورٹی کا حکم نہیں دیا تھا‘ عدالت کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کسی بھی ریاستی ادارے کو سیکیورٹی کے لیے طلب کر سکتی ہے مگر عدالت نے بھی رینجرز کو طلب نہیں کیا تھا۔
صحافیوں نے رجسٹرار کے ساتھ مل کر میڈیا لسٹ تیار کی تھی‘ عدالت نے اس میڈیا لسٹ کی باقاعدہ منظوری دی تھی‘ صحافی اس لسٹ کے مطابق عدالت پہنچے تھے اور عدالت کے اہلکاروں نے انھیں کورٹ روم میں بٹھا یا تھا لیکن پھر عین وقت پر رینجرز آئے‘ صحافیوں کو باہر نکالا اور گیٹ بند کر دیا یوں حکومت کے سارے ابو باہر رہ گئے‘ عدالتی ابو بے بس ہو گیا اور رینجرز کا ابو اندر بیٹھ گیا‘ وزیر داخلہ رینجرز کے انچارج بریگیڈیئرآصف کو باہر بلاتے رہ گئے لیکن وہ اس وقت باہر آئے جب وزیر داخلہ اپنی توہین اور غصے کے ساتھ واپس جا چکے تھے۔
یہ برا ہوا لیکن کیا یہ برا ہمارے ملک میں پہلی بار ہوا؟ نہیں یہ ہوتا رہا تھا‘ یہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ملک میں ابو موجود ہیں‘ ہمیں ماننا ہوگا ملک میں جب تک ابو ہیں تو ابو کا لاء بھی چلے گا ‘ گیٹ بھی بند ہوں گے اور عزت داروں کی بے عزتی بھی ہو گی اور ابو کا یہ لاء صرف فوج تک محدود نہیں‘ آج پاکستان مسلم لیگ ن ایک بار پھر میاں نواز شریف کو ابو بنا رہی ہے‘ آج ایک بار پھر ابو دا لاء پوری پارٹی کے منشور اور پوری پارٹی کے لاء پر بھاری ہو جائے گا۔
یہ ابو جس کو کہیں گے وہ نکال دیا جائے گا‘ یہ ابو جس کو لائیں گے وہ آ جائے گا اور یہ ابو جس کو جس کرسی پر بٹھائیں گے وہ بیٹھ جائے گا‘آپ دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے ملک میں جب جمہوری پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں ہو گی‘جب وہاں ’’ابو دا لاء‘‘ چلے گا تو آپ پھر غیر جمہوری ابو کو کیسے روکیں گے‘ آپ ان کا راستہ کیسے بند کریں گے؟ آپ یقین کر لیجیے آپ جب تک اپنے ابو کو لاء کے نیچے نہیں لائیں گے آپ اس دن تک کسی ابو کو نہیں روک سکیں گے‘ ملک میں اس وقت تک ابو دا لاء اور ابو دا راج چلتا رہے گا‘ آپ خواہ اس کے خلاف کتنا ہی احتجاج کر لیں‘ آپ خواہ کتنا ہی شور کر لیں۔
کل وزیر داخلہ احسن اقبال نے اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد سے پوچھا تھا کیا یہ ملک بنانا ری پبلک ہے؟اے سی خاموش رہا لیکن میںجواب دینا چاہتا ہوں۔یہ ملک بنانا ری پبلک نہیں ہے لیکن یہ بنانا ری پبلک بن ضرور رہا ہے اور بننے کے اس عمل میں حکومت اور حکومت کے ابو بھی اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنے ذمے دار دوسرے ابو ہیں چنانچہ حکومت اپنے ابو کا محاسبہ کرے‘ باقی ابوؤں کو وقت روک لے گا کیونکہ وقت دنیا کا سب سے بڑا ابو ہے اور اس ابو کے لاء کے سامنے کسی ابو کا لاء نہیں ٹھہرتا‘ آپ صرف وقت کا انتظار کریں۔