قرطبہ کے شاہی ہسپتال کے سرجن ابوالقاسم نے ’’التصریف‘‘ نام کی ایک کتاب میں جراحی پر لکھی تھی۔ ان میں بیان کردہ کئی اوزار آج بھی ہسپتالوں میں استعمال ہورہے ہیں
کس کے دل میں بڑا آدمی بننے کی آرزو نہیں مچلتی۔ مثل مشہور ہے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے۔ اسی طرح بڑے آدمیوں کو دیکھ کر یا ان کی زندگی کے حالات اور کارنامے پڑھ کر ہر نونہال کو ان جیسا بڑا اور مشہور آدمی بننے کی تمنا ضرور ہوتی ہے۔ صرف بادشاہ یا وزیر اور کسی ملک کا صدر ہی بڑا آدمی نہیں ہوتا، وہ لوگ بھی بڑے ہوتے ہیں، جو علم، نیکی پارسائی یا کسی فن کے اعتبار سے مشہور ہوں۔ اصل بڑائی وہی ہے جو ہمیشہ باقی رہے اور لوگ مرنے کے بعد بھی اس کا اعتراف کرتے رہیں۔ تاریخوں میں ایسے ہزاروں آدمیوں کا ذکر ملتا ہے، جو اپنے زمانے میں کسی نہ کسی وصف کے اعتبار سے بڑے تسلیم کیے جا چکے ہیں اور آج بھی ہم ان کی عزت کرتے ہیں ۔ ان کے کارنامے پڑھ کر بے اختیار جی چاہنے لگتا ہے، کاش ہم بھی ایسے ہی ہوتے۔ یوں تو اصلی بڑائی صرف خدا کا حصہ ہے جس کو موت اور فنا نہیں، بقا ہی بقا ہے۔ لیکن وہ انسانوں سے بھی جس کو چاہتا ہے بڑائی عطا کردیتا ہے۔
اس وقت میں آپ کو تاریخ کے بڑے آدمی سے ملاتا ہوں۔اس کا نام ابوالقاسم تھا اور وہ عباس الزاہروی کا بیٹا تھا۔ 936 ء میں قرطبہ کے نزدیک مدینہ الزہرا میں پیدا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے زہراوی اس کا نام پڑ گیا۔ اس کے باپ دادا سپین (ہسپانیہ) کے رہنے والے تھے۔ ابوالقاسم پڑھ لکھ کر امیر عبدالرحمان سوم (912 تا961 ئ) کا طبیب خاص بن گیا اور قرطبہ کے شاہی ہسپتال میں سرجن کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ ابوالقاسم بہت ہی اچھا طبیب اور نہایت عمدہ فزیشن تھا۔ اسے مفرد اور مرکب دواؤں کا عالم سمجھا جاتا ہے۔ ابوالقاسم نے نہایت عمدہ اسلامی اور علمی ماحول میں آنکھ کھولی اور اپنے زمانے کی بہترین یونی ورسٹی میں علم حاصل کیا۔ بڑے بڑے شفاخانوں میں اس نے جراحی میں کمال پیدا کیا۔ ابوالقاسم کے زمانے میں مسلمان اس فن میں ماہر تھے اور ہسپتال میں انسان کے بدن کی تشریح سکھانے اور جراحی میں ماہر بنانے کے لیے طالب علموں کو لاشوں کی چیرپھاڑ کی مشق بھی کرائی جاتی تھی، جیسے آج کل میڈیکل کالجوں میں کرائی جاتی ہے۔
ابوالقاسم نے ’’التصریف‘‘ نام کی ایک کتاب میں جراحی پر لکھی تھی۔ ان میں بیان کردہ کئی اوزار آج بھی ہسپتالوں میں استعمال ہورہے ہیں جب کہ طبابت کا علم سائنس کے زور سے بہت ترقی کر چکا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹروں کو سرجری میں جو رتبہ حاصل ہو اہے، وہ ابوالقاسم اور ایسے ہی دوسرے عربی اطبا کا طفیل ہے۔ انگریز دانش وروں نے بھی ابوالقاسم کی تعریف کی ہے۔ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ انہوں نے شروع میں سے بہت کچھ سیکھا اور جراحی کی کتاب سے خوب روشنی حاصل کی۔ 1368ء میں ابوالقاسم کی سرجری یورپ میں خوب مشہور ہو چکی تھی۔ مغربی طب پر ابن رشد اور ابوالقاسم کا بہت گہرا اثر پڑا ہے۔
ابوالقاسم کی کتاب التصریف برسوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی خاص طور پر اٹلی میں اس کو بڑی لگن اورتوجہ سے پڑھایا گیا۔ یہ کتاب پہلی بار 1497ء میں لاطینی زبان میں وینس میں چھاپی گئی، پھر 1500ء میں لوکے ٹس میں چھپی، اس کے بعد 1541 میں سٹرس برگ میں اور پانچ سال بعد باسل میں چھاپی گئی۔ اس کی شرحیں بھی لکھی گئیں۔ ابوالقاسم نے اس کتاب کے علاوہ بھی طب پر کئی کتابیں لکھیں ۔ اب ان کے لاطینی ترجمے یورپی لائبریریوں میں مل سکتے ہیں۔ ابوالقاسم زہراوی دنیا کو اپنی سرجری کے کمالات دکھا کر 1013 میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور قرطبہ میں دفن ہوا۔