تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
میزبان ِرسالت، پرچم بردار ِرسول اللہ، مجاہد ِاسلام، جانثار ِحیدر ِکرّار،صحابی ِجلیل، تاجدار ِقسطنطنیہ،
صحابہ کے حسیں شہپر ، ابو ایوب انصاری سبھی ولیوں کے ہیں رہبر،ابو ایوب انصاری
بحکم ِکبریا لے کر وہ محبوب ِ دوعالم کو خراماں لائے اپنے گھر ، ابو ایوب انصاری
اٹھاتے تھے شہ ِ لولاک کاپرچم وہ غزوے میں فدائے ساقی ٔ کوثر ، ابو ایوب انصاری
علی مشکل کشا کے جانثار و خادم ِزہرا سخی حسنین کے دلبر ، ابو ایوب انصاری
سراپا عشق ِاہل ِبیت کی تصویر تھے آقا ندیم ِخانہ ٔسرور ۖ، ابو ایوب انصاری
کسی فرعون وغاصب کو وہ خاطر میں نہ لاتے تھے غلام ِحیدر ِ صفدر ، ابو ایوب انصاری
ہیں لیٹے مرقد ِاطہر میں رکھے پاک سینے پر وہ نقش ِپائے پیغمبر ۖ، ابو ایوب انصاری
سلاطین ِزمانہ نے تیرے روضے پہ جھاڑو دی اے شاہ ِملک بحر و بر ، ابو ایوب انصاری
سخی لجپال کے انوار استنبول ترکی میں علی عبّاس کے یاور، ابو ایوب انصاری
حضرت خالد بن زیدبن کلیب بن ثعلبہ بن عبد عوف خزرجی ،پیغمبر اسلام کے مقرب اصحاب میں سے ہیں۔قبیلہ بنو نجار فخر موجودات کاننھیالی قبیلہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا عزیز ترین اور نگاہ ِرسالت میں انصا ر کا بہترین گھرانہ تھا۔ سیدنا ابو ایوب اس قبیلہ کے رئیس تھے۔آپ کی والدہ زہرا بنت ِسعد خزرجی آپ کے والد کی ماموں زاد بہن تھیں۔
آپ اسم گرامی کی نسبت کنیت ِمبارکہ ،ابو ایوب سے معروف ہیں۔مالک بن نجار کی اولاد سے ہونے کے باعث ”المالکی”، انصار کے” ازدی” ہونے کی وجہ سے ”الازدی” اور انصار ِمدینہ میں سے ہونے کے باعث،آپ کو ابو ایوب انصاری کہا جاتا ہے۔٥٧٦ء میں پیدا ہوئے۔ ٦٢٢ء میںپیغمبر اکرم کی مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے بعدانصارِ مدینہ نے آپ کا فقیدالمثال پرجوش استقبال کیا۔ دل فرش ِراہ کر دیے اور نظریں عقیدت و محبت سے جھک گئیں۔ہر انصاری آپ کی خدمت ِعالیہ میں دوسرے سے سبقت کا خواہشمند تھا۔پیغمبر اسلام نے مدینہ سے باہر قبا کے مقام پرکچھ روز قیام فرمایااور تاریخ ِاسلام کی پہلی مسجد کی تا سیس فرمائی جسے سورة توبہ میں تقویٰ کی بنیاد پہ قائم کی جانے والی مسجد قرار دیا گیا ہے۔
ج لَّمَسْجِد أُسِّسَ عَلَی الْتَّقْوَیٰ مِنْ أوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُوْمَ فِیْہِج فِیْہِ رِجَال یُحِبُّوْنَ اَنْ یَتَطَھَّرُوْاْج وَاْللّٰہُ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ ة١٠٧
یہ مسجد اولیں بنیاد تھی طاعت گزاری کی صفا کی ، صدق کی ،تقویٰ کی اور پرہیز گاری کی
ضیائے حق سے رشک ِطور ِسینا بن گیا یثرب نبی کا آستاں بن کر مدینہ بن گیا یثرب
انصار ِمدینہ: انصار ،ناصر یا نصیر کی جمع ہے ۔انصار ،مدینہ منورہ کے ان مقدس باشندوں کا لقب ہے جنہوں نے اسلام کی دعوت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی اور ہجرت کے بعد سرور ِکونین ۖاور دوسرے مہاجرین اسلام کو اپنے گھروں میں ٹھہرا کر جان و مال اور ہر طرح سے اعانت و نصرت کا حق ادا کیاجس کے عوض اللہ تعالیٰ نے انہیں انصار کے نام سے حیات ِجاوید عطا کی ۔ان کے شہر کو اپنے محبوب کی پسندیدہ اورمستقل اقامت گاہ بنا کر دنیا بھر کے فرزندان توحید کے لیے رگ ِجاں سے عزیز تربنا دیا ۔سورة انفال میں ارشاد ِربانی ہے وَالَّذِیْنَ اٰ وَوْاوَّنَصَرُوْآ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُئومِنُونَ حَقّاً ط لَھُمْ مَّغْفِرَة وَّرِزْقکَرِیْم ة (٧٤) اور جن لوگوں نے اسلام کو پناہ دی اور نصرت کی وہی سچے مومن ہیں،ان کے لیے مغفرت اور اچھا رزق ہے۔
انصار ،دو قبائل سے تعلق رکھتے تھے ۔ایک خزرج اور دوسرا اوس قبیلہ تھا۔
مدینہ منورہ کو عمالقہ نے ١٦٠٠سے ٢٢٠٠قبل مسیح کے درمیان آباد کیا تھا ۔عمالیق کا سلسلہ نسب عملاق بن ارفخشد بن نوح سے جا ملتا ہے۔یہ لوگ تمام عرب میں پھیل گئے اور مدینہ میں ان کے جو قبائل آباد ہوئے ان کے نام بنو ہفان، سعد بن ہفان اور بنو مطرویل تھے ۔ عمالیق کے بعد بنی اسرائیل یہود آکر قابض ہوئے اور عمالقہ کو شکست دے کر ارض ِحجاز پہ قبضہ کر لیا۔شام پہ رومی یلغار اور قتل ِعام کے بعد شام میں مقیم بنو قریظہ اور بنو نضیر شام سے حجاز آکر اپنے یہودی بھائیوں کے ساتھ آباد ہو گئے ۔احبارِیہود، نبی آخر الزمان ۖ کی آمد پہ یقین رکھتے تھے اور توریت کے باعث جانتے تھے کہ آپ ۖ کا دارِہجرت دو پتھریلی زمینوںکے درمیان نخلستان سے گھرا ہو گا؛
یقیں رکھتے تھے یہ توریت کی پیشین گوئی پر کہ اسماعیل کی اولاد میں ہو گا وہ پیغمبر
انہیں معلوم تھااب وہ پیمبر آنے والا ہے بشر کے واسطے نورِ شریعت لانے والاہے
یہ بیٹھے انتظار ِہادیٔ موعود کرتے تھے میان ِاہل ِیثرب کاروبار ِسود کرتے تھے
رسول اللہ کی عظمت کے گرچہ دِل سے قائل تھے مگر یہ اِن کی فطرت تھی عداوت ہی پہ مائل تھے
اسی جستجومیں بقدرِفہم جس قبیلہ نے کسی شہر یا آبادی کو ان خصوصیات کا حامل پایا وہیںآباد ہو گیا ۔ بعض تیماء کے نخلستانوں میں آباد ہوئے ،بعض نے خیبر کو اپنا مسکن بنایا اور کثیر تعداد یثرب میں اقامت گزیں ہو گئی۔عمالیق کے بعد یہود نے مدینہ اوراس کے نواحی علاقوں پر دور دور تک شاہانہ اقتدار قائم کر لیا تھا اور جگہ جگہ قلعے بنا کر ان میں سکونت رکھتے تھے۔
اوس وخزرج ،بنونجّار : عین اس وقت جب مدینہ سے شام تک یہود کا اقتدار نصف ِنہار پہ تھا ،عرب ِمستعربہ میں نابت بن اسماعیل کی اولاد کے دوقبائل اوس وخزرج مدینہ میں وارد ہوئے ۔ نابت بن اسماعیل کی وفات کے بعدان کی اولاد عرب کے مختلف حصوں میں پھیل گئی جس کی متعدد شاخوں میں سے ایک شاخ ”ازد” یمن میں آباد ہوئی ۔قبیلہ ازد سیل ِعرم سے کچھ عرصہ قبل یمن سے روانہ ہوا۔اس وقت رئیس ِقبیلہ عمروْ بن عامر تھے جو مزیقیاء (صاحبِ تصرف )کے لقب سے معروف ہیںجن کے پڑپوتے دو بھائی اَوس وخَزرج تھے ۔انصار کے تمام خاندان انہی اوس و خزرج پر جا کر مل جاتے ہیں؛
یہاں کے رہنے والے اوس وخزرج کے قبائل تھے نہایت بامروت ، اہل ِدِل ، اہل ِوسائل تھے یہودی بھی بکثرت تھے ،معزز سمجھے جاتے تھے یہ لڑوا کر قبائل کو بہت ہی لطف اٹھاتے تھے
ازدی قبائل یمن سے نکل کر شام،عراق، عمان،یمامہ،بحرین اور عرب کے دوسرے مختلف مقامات پر آباد ہو گئے۔
ان قبائل کی ایک شاخ ثعلبیة میں مقیم ہوئی ۔جب اس کی تعداد میں اضافہ ہوا تو وہ ثعلبیة کی سکونت ترک کر کے مالک بن عجلان کی زیر سرپرستی یثرب میں آکر آباد ہوئے ۔یہی قبائل اوس و خزرج تھے جو بعد میں انصارِ رسول اللہ یا انصار ِمدینہ کہلائے ؛ بتوں کو چھوڑ کر اور حب ِمال وجاہ کو تج کے مسلماں ہوچلے آخر گھرانے اوس وخزرج کے لیا جانے لگا ختم ِرسل کانام یثرب میں لگا ہر سمت پھلنے پھولنے اسلام یثرب میں اوس کے ایک بیٹے مالک کی اولاد پانچ شاخوں میں تقسیم ہوئی اور خزرج کے پانچ بیٹوں کی شاخوں میں عمروْ بن خزرج سے بنو نجار کا قبیلہ تھا جو سرکار ِدوعالم ۖکاننھیالی قبیلہ اور پسندیدہ خاندان ہے۔ اسی خاندان کے رئیس کو میزبان ِرسالت ہونے کا اعزاز ملا۔
مناقب ِابو ایوب انصاری ١۔ آپ انصار ِمدینہ کے سابقون الاولون میں سے ہیںاور رسول اللہ ۖ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے قبل ہی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔آپ خدا کے ان پاکباز اور برگزیدہ بندوں میں سے ہیں جن کے متعلق قرآن ِحکیم میں ارشاد ہوتا ہے؛ وَالسّٰبِقُوْنَِ الْأوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَا نٍلا رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِْ تَحْتَھَا الْأنْھٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْھَآأَبَدًاطذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ ة
وہ مہاجرو انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ِایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی ،نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اوروہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔سورة توبہ، آیت ١٠٠۔ آپ نے بیعت ِعقبہ کبیرہ میں رفقا کے ساتھ حضورۖ سے پیمان کیاکہ وہ اپنی جان و مال اور اولاد کے ساتھ آپ کی مدد اور حفاظت کریں گے۔
آپ کو رحمت ِعالم کی میزبانی کا شرف ملاجس پہ اصحاب ِکبار رشک کیا کرتے تھے۔ آپ میدان ِبدر کے تین سو تیرہ نفوس ِقدسیہ میں سے ایک ہیں۔ بیعت ِرضوان کے چودہ سواصحاب ِرسول ۖمیں شامل ہیں۔اللہ رب العزت نے انہیںاصحاب ِشجرة کے نام سے پکارا اور جنت کی بشارت دی ۔فتح ِ مکہ کے دوران حضورۖ کے ہمرکاب رہے ۔ حضور ِاکرم ۖکے تمام غزوات میں شامل رہے اور اسلام کے ہراول دستے کا کردار سرانجام دیا۔ امیر المومنین سیدنا امام علی ابن ابی طالب اپنی غیر موجودگی میںمسجد نبوی شریف میں اصحاب ِرسول کو آپ کے اتباع اور اقتدا میں نماز ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ اسلام و کفر کے معرکوں کے بعد اسلام و نفاق کی محاز آرائی میں اسلامی دستوں کی قیادت فرمائی اورمعرکہ حق و باطل کے دوران ہی بارگاہ ِرسالت میںابدی حاضری کو پیش ہوئے۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا قبا سے مدینہ تین میل کا راستہ جمال ِرسالت ۖکے مشتاقان ِدید سے بھرا تھا ۔شہر مدینہ کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع اور یوم مسرت تھا ۔خاک یثرب کے ذرّے ابھر ابھر کر ہمہ تن دید بن گئے تھے کہ آج انہیں اس رحمت ِمجسم کے پائے اقدس چومنے کا شرف حاصل ہونے والا تھا جو تمام کائنات ِارضی و سماوی کا سرمایہ افتخار تھا ۔سارا شہر جوش ِمسرت اور فرط ِعقیدت سے گہوارئہ بہار بنا ہوا تھا اور فضانغمہ ہائے تحمید و تقدیس سے معمور تھی؛
طلوع ِبدر کے ساماں ہوئے بزم ِکواکب میں کئی دن سے یہ روشن ہو چکا تھا ارض ِیثرب میں
نکل کر شہر سے خلقت قبا تک چل کے آتی تھی تمنا رنگ ِحسر ت بن کے آنکھوں میں سماتی تھی
ہوا کرتی تھی فرش ِراہ اُٹھ کر باربار آنکھیں ہمہ تن انتظار آنکھیں ، سراپا اشک بار آنکھیں
بھٹکتا تھا تصور منزلوں میں اور راہوں میں سحر سے شام تک اِک شکل رہتی تھی نگاہوں میں
کم سن بچے ”جَائَ رَسُوْلَ اللّٰہ، جَائَ رَسُوْلَ اللّٰہ ”، رسول اللہ آگئے،رسول اللہ آگئے کے نعرے لگاتے ہر طرف خوشی سے اچھل کود رہے تھے۔جوش ِمسرت میں پردہ نشین خواتین بھی گھروں کی چھتوں پر نکل آئی تھیں۔مکانوں کی بالائی منزلیں اور منڈیریں ان سے بھری تھیں ۔مدینہ کے گلی کوچے ایک ہی صدا سے گونج رہے تھے؛ طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا، مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاع،ہم پر چودہویں کا چاند طلوع ہوا،کوہ ِوداع کی گھاٹیوں سے ، وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا، مَادَعَیٰ لِلّٰہِ دَاع،ہم پر خدا کا شکر واجب ہے ،جب تک دعا مانگنے والے دعا مانگیں، اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا، جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمَطَاع، اے ہم میں مبعوث ہونے والے ، آپ ایسے امر کے ساتھ آئے ہیں جس کی اطاعت فرض ہے۔
جوان وپیر ، مرد وزن سراپاچشم بیٹھے تھے بہار آنے کو تھی گلشن سراپا چشم بیٹھے تھے
مسلمانوں کے بچے بچیاں مسرور تھے سارے گلی کوچے خدا کی حمد سے معمور تھے سارے
زباں پر اَشْرَقِ الْبَدْرُ عَلَیْنَا کی صدائیں تھیں دلوں میں مَا دَعیٰ لِلّٰہْ کی دعائیں تھیں
نبوت کی سواری جس طرف سے ہو کے جاتی تھی درودونعت کے نغمات کی آواز آتی تھی
بنو نجار کا جوش و خروش اور مسرت و ابتہاج بے انتہا تھی۔انہیں یقین تھا کہ سرور ِعالم ۖ انہیں ہی شرف ِمیزبانی بخشیں گے اور اس طرح انہیں حبیب ِکبریا ۖ کاہمسایہ بننے کی سعادت نصیب ہو گی۔بنو نجار کی معصوم بچیاں دف بجا بجا کر یہ ترانہ گا رہی تھیں؛ نَحْنُ جَوَارِیْنْ بَنُِّ الْنَّجَّارِ، یَا حَبَّذَاْ مُحَمَّدََا مّنْ جَارِ؛
کہ ہم ہیں بیٹیاں نجّار کے عالی گھرانے کی خوشی ہے آمنہ کے لعل کے تشریف لانے کی
انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے اس دن سے زیادہ مبارک اورپرمسرت دن کوئی نہیں دیکھا جس میں رسول ِاکرم ۖ مدینہ میں رونق افروز ہوئے۔اس دن مدینہ کے در ودیوار طلعت ِاقدس سے جگمگا اٹھے؛
رسو ل اللہ سلام انصار کا لیتے ہوئے گزرے زباں سے خیر وبرکت کی دعا دیتے ہوئے گزرے
در ودیوار ایستادہ ہوئے تعظیم کی خاطر زمیں کیا آسماں بھی جھک گئے تسلیم کی خاطر
اہل ِایمان مسرور تھے تو وہیں یہود و نصاریٰ اور منافقین کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ۔ رحمت ِدوعالم کے جلال سے بزم کفر و شرک میں بھونچال آگیا اور بد بخت یہود و نصاریٰ نے اپنے صحائف سے آنکھیں بند کر لیں؛
فضا میں بس گئیں توحید کی آزاد تکبیریں یہ تکبیریں تھی باطل کے گلو پر تیز شمشیریں
حسد کرنے لگی قوم ِیہود اس دین وملت سے بنے بیٹھے تھے وہ لوگوں کے ہادی ایک مدت سے
میزبان ِرسالت ۖ
سرکار ِدوعالم ۖ،ناقہ مبارک قصویٰ پہ سوارمدینہ منورہ کی پرکیف فضا میں داخل ہوئے توآپ پر نزول ِوحی کی کیفیت طاری تھی۔ رئوسائے مدینہ آپ کے استقبال کو کھڑے تھے اور ہر کسی کے دل میں آپ کی ضیافت و میزبانی کا اعزاز حاصل کرنے کاشوق تھا۔ ناقہ ٔ رسول کے راستے میں ہر کوئی ملتجی تھا،”یا رسول اللہ!ہمارے ہاں قیام فرمائیں۔”سرورِ کونین ۖاپنے چاہنے والوں کے حق میں دعائے خیر فرماتے اور پھر فرماتے، ”خَلُّوا سَبِیْلَھَا فَاِنَّھَا مَاْمُوْرَةْ” اس کو چھوڑ دو ،(یعنی اس کا راستہ نہ روکو )یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے۔ہر کسی کا دل و نظر ایک ایک قدم پہ دھڑکتا تھا۔ہر مکان کے سامنے سے گزر جانے پر اس مکان کا مالک اداس ہو جاتا اور خود کو محروم ِسعادت محسوس کرتاجبکہ دوسرے کے دل میں امید کی کرن جاگ اٹھتی؛
ہر اِک مشتاق تھا پیارے نبی کی میہمانی کا تمنا تھی شرف بخشیں مجھی کو میزبانی کا
ہراِک مشتاق اپنی اپنی قسمت آزماتا تھا بصد آداب ومنت راہ میں آنکھیں بچھاتا تھا
بہت ہی کشمکش تھی اشتیاق ِمیزبانی کی نبی ۖنے اس عقیدت کی نہایت قدر دانی کی
کہا تم سب میرے بھائی ہو آپس میں برابر ہو تونگر ہے وہی جو زہد وتقویٰ میں تونگر ہو
اقامت کو مگر میں نے خدا پر چھوڑ رکھا ہے کہ ناقے کو فقط اُس کی رضا پر چھوڑ رکھا ہے
سبھی پیارے ہوتم ہر ایک سے مجھ کو محبت ہے جہاں ناقہ ٹھہرجائے وہیں جائے اقامت ہے
اونٹنی چلتی رہی اور عاشقان ِرسول ۖدست بستہ پیچھے رہے یہاں تک کہ ایک کشادہ مقام پر خانۂ ابو ایوب انصاری کے سامنے ناقہ ٔ رسول رکی اورپھر آگے بڑھی۔کچھ قدم لے کر واپس ہوئی اور اسی مقام پہ دوبارہ ٹھہر گئی ۔قصویٰ چلتے چلتے بنو نجار کے محلہ میں پہنچی اور اس جگہ جا کر بیٹھ گئی جہاں آج کل مسجد نبوی کا صدر دروازہ ہے۔ ناقہ ٔ رسول کچھ دیر رک کر تشریف فرما ہوئی۔ قلب ِابو ایوب کھل اٹھا۔آپ سرور ِکونین کی بارگاہ میں پہنچے اور انتہائی ولولہ انگیز گرمجوشی سے سلام عرض کیا۔حضور کا سامان اٹھایا اور انتہائی مسرت سے آپ کو اپنے گھر لے آئے ؛
رکی یکبارگی ناقہ بحکم ِحضرت ِباری جہاں اِک سمت بستے تھے ابو ایوب انصاری
فلک نے رشک سے دیکھا اس انصاری کی قسمت کو ابو ایوب گھر میں لے گئے سامان ِرحمت کو
حضرت ابو ایوب انصاری کا مکان دو منزلہ تھا ۔ایک کمرہ نیچے اور ایک اوپر ۔آپ نے بارگاہ رسالت ۖ میں عرض کی ،”یا رسول اللہ ! آپ غریب خانہ کی بالائی منزل میں قیام فرمائیں۔ ”حضور ۖنے فرمایا،” نہیں!میرے پاس لوگوں کی آمد و رفت رہے گی اس لیے نچلی منزل ہی میرے قیام کے لیے موزوں ہے۔ ”چنانچہ حضور کی خواہش کے مطابق حضرت ابو ایوب نے مکان کی زیریں منزل خالی کر دی اور خود بالا خانے میں فروکش ہو گئے ۔حضرت ابو ایوب انصاری اور آپ کی اہلیہ کو ہر وقت یہ خیال مضطرب رکھتا تھا کہ وہ تو بالائی منزل میں مقیم ہیں اور مہبط ِوحی و رسالت نچلی منزل میں ہیں۔انہوں نے بالائی منزل حضور پرنور کے لیے خالی فرما دی مگر حضور نے نیچے کی منزل پہ قیام پسند فرمایا۔رات آئی اور حضور استراحت فرما ہوئے ۔ ابو ایوب بالائی منزل پہ تشریف لے گئے ۔دروازہ بند کیا اور زوجہ سے مخاطب ہوئے ؛ ”کیسی بے ادبی ہے ،سرکار نیچے ہیں اور ہم ان سے اوپر ،کہیں ہم ان میں اور ان پر آنے والی وحی میں رکاوٹ نہ بن جائیں،اگر ایسا ہواتو یقینا ہم خسارے میں ہیں۔”
دونوں انتہائی پریشان و پشیمان ہوئے اور کچھ سجھائی نہ دیا ۔بالائی منزل کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے اور کچھ اطمینان حاصل ہواکہ یہ جگہ سرکار کی جائے قیام سے ہٹ کر ہے ۔ چلتے وقت چھت کے کناروں پر چلتے اور درمیانی جگہ استعمال نہ فرماتے تھے۔ صبح بارگاہ ِرسالت میں عرض کی ، ”یا رسول اللہ !بخدا ،رات میں اور ام ایوب ایک پل نہیں سو سکے۔””وہ کیوں!ابو ایوب ؟”سوال ہوا۔ابو ایوب نے تمام واقعہ بیان فرمایا اور خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں ہم نزول ِوحی میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔”کوئی بات نہیں ابوایوب ”،پیغمبر اکرمۖ نے دلاسہ دیا۔ایک یخ بستہ رات بالا خانے پر پانی سے بھرا ایک برتن پھوٹ گیا۔حضرت ابو ایوب انصاری اس خیال سے مضطرب ہو گئے کہ پانی بہہ کر نیچے جائے گا اور سرور دو عالم کو تکلیف ہو گی ۔گھر میں اوڑھنے کا ایک ہی لحاف تھا ۔حضرت ابو ایوب نے فی الفور لحاف گھسیٹ کر پانی پہ ڈال دیا تا کہ بہتا ہوا پانی لحاف کی روئی میں جذب ہو جائے۔جب پانی کے نیچے بہنے کا امکان نہ رہا تو میاں بیوی نے اطمینان کا سانس لیا۔
سرور ِکونین ۖ بہ رضاورغبت مقیم تھے لیکن حضرت ابو ایوب اور ان کی اہلیہ کو بالا خانے کی سکونت تکلیف دہ تھی ۔یہ خیال ان کے لیے سوہان ِروح تھا کہ فخر موجودات ،خیر البشر،سید الرسل،سرور ِکون و مکاں تو نچلی منزل میں مقیم ہوں اور ان کے ادنیٰ ترین خدام بالائی منزل میں۔یہ روحانی اذیت ایک رات اسقدر شدت اختیار کر گئی کہ دونوں میاں بیوی چھت کے ایک کونے میں سکڑ کر بیٹھ گئے اور ساری رات اسی حالت میں جاگ کر گزاردی۔صبح ہوئی تو حضرت ابو ایوب سرور ِکونین ۖ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ،”یارسول اللہ ! ہم ساری رات چھت کے ایک کونے میں بیٹھ کر جاگتے رہے۔ ” حضورۖ نے وجہ دریافت فرمائی تو عرض کیا؛ ”ہمارے ماں باپ آپ پہ قربان!ہمیں ہر لحظہ آپ کی بے ادبی کا اندیشہ دامن گیر ہے جورات شدت اختیار کر گیا۔یا رسول اللہ ! ہم غلاموں پہ کرم فرمایئے اور بالا ئے منزل تشریف لے چلیے۔حضورۖ کے غلاموں کے لیے آپ کے قدموں کے نیچے رہنا ہی باعث ِسعادت ہے۔ ”تاجدار ِمدینہ نے آپ کی درخواست منظور فرما لی اور اوپر کی منزل پہ منتقل ہو گئے ۔آپ ۖ خانہ ابو ایوب میں سات ماہ قیام فرما رہے اور آپ کے ساتھ اسی مکان میں سیدنا علی بن ابی طالب ور حضرت زید بن حارث بن عبدالمطلب بھی فروکش رہے۔
تحریر تُبَّع: سرور ِکونین ۖکی مدینہ منورہ تشریف آوری سے دو سو سال قبل شاہِ یمن و حضر موت تبع جن کا نا م ابو کرب اسعد بن ملک یکرب(اسعد ِکامل بن ملک یکرب بن تبع بن زید بن عمروبن تبع بن ذی الازعار بن ابرھةتبع ذ المنار بن الرائش بن قیس بن صیفی بن سبا،٣٧٨ء میںاقتدار لے کرمملکت ِحمیر کوخاطرخواہ وسعت دینے والے بادشاہ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو مغلوف کیا ۔کلام مجید سورةمبارکہ دخان کی آیت ِمقدسہ ٣٧میں آپ کے لقب سے اہل ِیمن کاذکر ہے ۔ سرکار ِدوعالم ۖنے فرمایا، لاَ تَسَبُّوْا تُبَّعاً فَاِنَّہُ کَانَ مُؤْمِناً،تبع کے بارے میں نازیبا کلمات نہ کہو کہ وہ صاحب ِایمان تھے ۔) تھا یَثْرِبْ سے گزرے ۔آپ کے ہمراہ چار سو علمائے کتب ِسماوی تھے ۔وہ سب اسی جگہ رہنے پہ مصر ہوئے۔ تبع نے اصرار کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا، مکتوب ِصحائف ہے کہ یہ جگہ نبی آخر الزمان کی جائے ہجرت ہے ۔ہم یہاں آباد ہو نا چاہتے ہیں کہ شاید ہم ان کی زیارت سے مشرف ہو جائیں ۔تبع نے انہیں وہاں آباد ہونے کی اجازت دے۔
کر رَأسُ الْعُلَمَاء شامول کو وثیقہ پیش کیا؛
شَھَدْتُ عَلیٰ اَحْمَداً اَنَّہُ، رَسُوْل مِّنَ اللّٰہ بَارِْ الْنَّسَمْ، فَلْوْمَدَّ عُمْرِْ اِلیٰ عُمْرِہ، لَکُنْتُ وَزِیْراً لَّہُ وَابْنِ عَمْ
میں احمد کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالی کے رسول ہیں، اگر میری عمر ان کے زمانہ تک دراز کر دی جاتی تو میں ان کا اور
ان کے ابن ِعم کا وزیر ہوتا۔
تبع نے ان علما کو مکانات بنوا کر دیے اور ایک مکان سرورِ کونین ۖ کے لیے وقف فرما کر جناب ِشامول کو اس کا متولی بنایا۔انہی شامول کی نسل میںاکیسویں پشت میںمیزبان ِرسالت ۖ ابو ایوب انصاری تھے ۔یہ تحریرپشت درپشت منتقل ہوتے آپ تک پہنچی اور حضور کی آمد تک موجود تھی۔
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ