پاکستان اور خاص طور پر پنجاب اس وقت دنیا میں انتہائی شدومد سے کی جانے والی تعلیمی اصلاحات کا مرکز بنا ہوا ہے اور اصلاحات کرنے والوں کی توجہ ان نسلوں کی جانب مرکوز ہے جنہیں اب تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعلی پنجاب سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ ہر تین مہینے کے بعد وزیراعلی شہباز شریف محکمہ تعلیم کے حکام کو ایک بڑی سی مستطیل میز کے گرد جمع کرتے ہیں۔
آبادی (110 ملین)کے لحاظ پاکستان کے چاروں صوبوں اور گیارہ ممالک سے بڑے صوبے پنجاب میں اسکولوں کی اصلاحات جس رفتار سے کی جارہی ہے، دنیا میں شاذ و نادر ہی وہ کہیں دیکھی گئی ہے۔
اپریل 2016 میں اپنے تازہ ترین منصوبے کے حصے کے طور پر نجی شعبے نے حکومت کے ایک ہزار سرکاری اسکولوں کا انتظام سنبھال لیا۔ آج یہ تعداد چار ہزار تین سو ہے۔ اس سال کے اختتام تک شہباز شریف نے حکم نامہ جاری کیا ہے کہ یہ تعداد 10 ہزار ہوگی۔
ہر تین ماہ کے بعد جائزہ لیا جاتاہے کہ اس جانب اور دیگر اہداف کے لئے کیا پیش رفت ہورہی ہے اور یہ کہ آیا بنیادی طور پر بحالی کے اس کام کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں یا نہیں۔ حکام کے لئے یہ بہت سخت معاملہ ہو سکتا ہے۔
جدوجہد میں مصروف اضلاع سے تعلق رکھنے والے حکام کو لاہور بلایا جاتا ہے اور بقول پنجاب کے سیکرٹری تعلیم اللہ بخش ملک یہاں جوشیلی اور ولولہ انگیز باتیں ہوتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ چار حروف، ایف، آئی، آر ،ای ۔ یعنی چھٹی۔ یعنی صرف وہی باقی رہے گا جو بقا کا مستحق ہوگا۔
ملک نے بتایا کہ گزشتہ 9 ماہ کے دوران تقریبا 30 فیصد ضلعی افسران کو خراب نتائج کی وجہ سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پنجابی رفتار سے کام کر رہے ہیں۔
برطانوی جریدے دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق پاکستان میں تعلیم کا طویل عرصے سے بہت برا حال ہے۔ کراچی کے نواح میں ایک سرکاری اسکول غالبا اجاڑ ترین تھا جو اس کے نمائندے نے کبھی دیکھا تھا۔ 6 اور 7 سال کی عمر کے ایک درجن سے کچھ اوپر بچے جالوں سے ڈھکی ہوئی ایک کلاس روم میں میز کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں، کسی نے بھی وردی پہنی ہوئی نہیں ہے، زیادہ تر کے پاس بستہ نہیں ہے، کچھ کے پاؤں میں جوتے بھی نہیں اور کوئی استاد نظر نہیں آتا۔
اسکول کا آغاز کرنے والے زیادہ تر بچے 9 سال کی عمر میں اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ صرف تین فیصد بچے 12 ویں جماعت پاس کرتے ہیں۔ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کا اسکول میں پڑھنے کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔ پاکستان میں لڑکے اور لڑکیوں کی انرولمنٹ کے مابین فرق افغانستان کے بعد جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے جو اسکول میں ہیں وہ بہت کم سیکھ پاتے ہیں۔ صرف نصف وہ پاکستانی جو پانچ سال کی پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہیں، خواندہ ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں تیسری جماعت کے پانچ میں سے صرف دوبچے جن کی عمر 8 سے 9 سال ہوتی ہے، ان میں حساب کی اتنی سمجھ ہوتی ہے کہ وہ 54 میں سے 25 نفی کر سکتے ہیں۔ یہ حیران کن بات نہیں کہ کئی والدین نظام سے منہ موڑ چکے ہیں۔
پاکستان میں اندازا ~68 ہزار نجی اسکول ہیں جو 2007 میں 49 ہزار تھے۔ اس وقت حکومت سے زیادہ نجی شعبے میں تعلیم پر رقم خرچ ہو رہی ہے۔ اسکولوں کو ملک بھر میں فلاحی اداروں اور کاروباری افراد کو دینے کا رجحان زورں پر ہے۔ابھی اس بڑے پیمانے پر ہونے والی اتھل پتھل کے نتائج کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہے لیکن یہ افسوسناک جوں کی توں صورتحال سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔
اگر یہ اصلاحات پاکستان میں انرولمنٹ اور معیار تعلیم کے مسائل اور لڑکیوں سے امتیازی سلوک کے معاملے میں کوئی نتائج پیدا کرتی ہیں تو یہ دیگر ممالک کے لئے ایک مثال بن سکتی ہے۔ پرانے نظام کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ کی جانب سے گلوبل ٹیررازم ڈیٹابیس کے مطابق 2007-15 تک دہشت گردوں نے تعلیمی اداروں پر 867 حملے کیے۔
طالبان نے سوات پر کنٹرول حاصل کیا تو انہوں نے لڑکیوں کے سیکڑوں اسکولز کو بند کر دیا تھا۔ بچے غربت کی وجہ سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر انہیں کھیتوں میں بچوں کی مدد حاصل کرنے اور اسکول میں کچھ نہ سیکھنے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو تو وہ پہلے کام کا انتخاب کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک نے حال ہی میں جو تجزیہ کیا ہے اس کے مطابق 96 ترقی پزیر ممالک میں سے دو کے سوا پاکستان میں امیر ترین اور غریب ترین بچوں میں انرولمنٹ کا فرق بہت زیادہ ہے۔ تاہم غربت ایک فیصلہ کن عنصر نہیں ہے البتہ تدریس ہے۔
ورلڈ بینک کے جشنو داس اور یونیورسٹی آف ٹرونٹو کے نٹالی باو کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں پنجاب میں 2003 سے 20074 کے دوران اساتذہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا، جنہیں عارضی طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ ان کے شاگردوں نے ان طالب علموں کے مقابلے میں بری کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جنہیں مستقل اساتذہ پڑھاتے تھے۔ جبکہ عارضی اساتذہ اکثر نسبتا ناتجربہ کار اور 35 فیصد کم تنخواہ پاتے تھے۔
پاکستان کے صوبوں میں ٹیچروں کی تنخواہیں تعلیم کے بجٹ کا 87فیصد ہوتی ہیں۔ اس میں سے بہت زیادہ رقم مکمل طور پر ضائع ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ٹیچر کی ملازمت انتخابی کارکنوں کی بھرتی کے طور پر اور اتحادیوں کو نوازنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ کچھ لوگ تو ٹیچر کی ملازمت کے لئے رقم بھی ادا کرتے ہیں۔
سندھ میں ایک مرتبہ پانچ لاکھ روپے کا ریٹ چل رہا تھا۔ چند برس قبل مسئلہ جب اپنے عروج پر تھا تو صوبے میں گھوسٹ ٹیچرز کی تعداد 40 فیصد تھی جو تنخواہ لیتے تھے اور پڑھاتے نہیں تھے۔ ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی طور پر طلبا کے سیکھنے کے نتائج کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ رشوت واحد مسئلہ نہیں ہے۔ نجی اسکولوں کو قومیا گیا اور پھر نجی تحویل میں دیا گیا۔ اسلام کو نصاب میں بنیادی حصے کے طور پر شامل اور پھر نکلا گیا۔