تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
کچھ لوگ جو ان دنوں رنگ برنگی پوسٹیں بنا بنا کر سوشل میڈیا پر عوام الناس کی ”گمراہی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں،ان دنوں لٹھ لے کر سعودی عرب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ان کا مسئلہ انسانی جانوں سے بڑھ کر مذہب ہے۔۔۔سعودی عرب میں پیش آئے افسوسناک واقعے پر ان کے ہاں سے افسوس کی بجائے بے چینی کی صدائیں آرہی ہیں۔اٹھتے بیٹھتے صرف سعودی عرب کو کوسنا ان دنوں ان کا محبوب مشغلہ ہے،صالحین کی یہ جماعت اس مقولے پر عمل پیرا ہے کہ قصور چاہے کسی کا بھی ہو مگر نزلہ سعودی عرب حکومت پہ ہی گرنا چاہیے۔۔عرض ہے کہ حضور سوال اٹھائیے مگر دلیل کے ساتھ،دنیا کا آسان کام ہے تنقید کرنا،مگر آپ کے ہاں تو جذبات کی ایسی فراوانی ہے کہ دلیل کہیں پچھلی قطاروں میں سر جھکائے دکھائی دیتی ہے۔بیس لاکھ سے زائد لوگ ہر رمضان اور حج کے موقع پر اپنے رب کے حضور اکٹھے ہوتے ہیں
برسوں سے کوئی واقعہ پیش نہیں آیا سوائے اکا دکا معمولی واقعات کہ۔منتظمین کو کوسنے سے پہلے سوچ کے گھوڑے دوڑائیے اپنے ہی ملک کے حجاج کرام پر نظر ڈالیے تقریبا ایک لاکھ پچاس ہزار پاکستانی حج کی سعادت حاصل کرنے جاتے ہیں مختلف زبان،مختلف صوبہ،مختلف شہر،مختلف نسل۔۔جناب والا کیا آپ نے ان کی روانگی اور آمد کا منظر ملاحضہ کیا ہے؟ایسا نظم و ضبط ہوتا ہے کہ چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔سعودی عرب کو برا بھلا کہنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیں کہ پوری دنیا سے بیس لاکھ ہر سال حج کرنے جاتے ہیں یہ لوگ سوائے اشارے کی زبان کے کوئی زبان نہیں سمجھ سکتے۔۔ایسے میں جب قوانین پر عمل نہ کیا جائے،ہدایات کو ہوا میں اڑا دیا جائے تو حادثہ ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
اس سانحے کے چند لمحے ہی بعد سوشل میڈیا میں جہاں بہت سارے لوگوں نے اس واقعہ پر دکھ ، افسوس ،دعا اور تعزیت کا اظہار کیا وہی کچھ عاقبت نا اندیش لوگ اس سانحے کو سعودی عرب کے ساتھ اپنی دیرینہ اور نظریاتی دشمنی نبھانے کے واسطے بطور ہتھیار استعمال کرنے لگے ، بہت کم ظرف اور نہایت جلد باز لوگ تھے یہ ، ورنہ تو ایسے سانحات کے موقعوں پر دشمن سے بھی اظہار ہمدردی کی جاتی ہے ، سعودی عرب میں ہی مقیم ایک دوست فردوس جمال حجاج کے لیے انتظامات کے بارے میں لکھتے ہیں”
حجاج کے لیے انتظامات کا سوال ہے ، مجھے پانچ سے زائد بار یہ توفیق نصیب ہوئی کہ میں مشاعر مقدسہ میں حجاج کرام کے شانہ بشانہ مناسک حج بجا لاؤں ، میں ہر سال یہاں کے انتظامات کو بغور دیکھتا ہوں ، میرا عمیق مشاہدہ ہے ،جگہ جگہ حجاج کرام کی راہنمائی کے لئے لگے سائن بورڈز ، اہم مقامات پر آویزاں بڑی بڑی راہنما سکرینیں ، چاک و چوبند سپیشل فورس اور پولیس کے دستے ، ہر چند میٹر پر دفاع مدنی کے دفاتر ، کشادہ داخلی اور خارجی ان گنت راستے ، ان راستوں سے نکلتے ایمرجنسی راستے ، فضا میں گشت کرتے ہیلی کاپٹرز ، الغرض ایسا منظم اور مربوط انتظام کہ مجھ سمیت یہاں حج پر آنے والا ہر حاجی یہاں کی حکومت کو اس حسن انتظام پر دعائیں دیے بنا نہیں رہ سکتا ا ، منیٰ کا افسوس ناک واقعہ حجاج کرام کے ایک گروپ نے انتظامی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کے باعث رونما ہوا ، یہ گروپ اچانک ہی ون وے پر مخالف سمت سے چڑھ دوڑا جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی
یہ گروپ کون تھا ؟ کہاں کا تھا ؟ اس پر ابھی تحقیقات ہورہی ہیں،تاہم عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے ، جن پر الموت لامریکا الموت لاسرائیل درج تھا ، یہ لوگ مذہبی نوعیت کے نعرے بھی بلند کر رہے تھے ،یہ گروہ بہت تیزی سے مخالف ٹریک پر چڑ دوڑا تھا ، اوپر سے گرمی بھی بہت تھی ، حبس کا عالم تھا ،جس کے باعث اتنا نقصان ہوا ، انتظامیہ کی طرف سے پیشگی اطلاع بھی تھی کہ گرمی کے باعث بہتر یہی ہوگا کہ حجاج کنکریاں عصر کے بعد مارے ،
مگر قدر اللہ و ما شائ فعل ، واقعہ کے فوراً بعد چار ہزار سے زائد امدادی کارکن اور فوجی اہلکار جائے حادثہ پر موجود تھے ، دو سو سے زائد ایمبولینس موقع پر پہنچ گء تھیں ،اگر انتظامیہ بروقت اور بھرپور کردار ادا نہ کرتی تو اس سے زیادہنقصان ہوسکتا تھا ، لاکھوں لوگ وقت حادثہ جائے حادثہ کے آس پاس تھے ” اب اس طرح کے واقعات کے بعد ملکوں کو تنقید کا ہدف بنا کسی طرح سے بھی مناسب نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ملک حج سے پہلے اپنے حجاج کرام کی معقول تربیت کا انتظام کریں ,تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے بچا جائے…
تحریر : فرخ شہباز وڑائچ