تحریر: لقمان اسد
اپنے ٹیلیفونک خطابات میں اس قدر غیر سنجیدگی اور بے احتیاطی جناب الطاف حسین برتتے ہیں کہ اللہ کی پنا ہ ! ڈانس کرنے انداز میں کبھی نغمے وہ گنگناتے ہیں ” پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھائو” تو کبھی پنجابی فلموں کے ہیرو سلطان راہی کی نقل اتارتے ہوئے فرماتے ہیں ‘ او ئے جاگیر دارا !ایم کیو ایم نال متھا ناں لئیں اوئے ” اور کبھی وہ تماتر اخلاقیات اور سیاسیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں ” ناپ تم بھجوائو بوری ہم تیا ر کر دیں گے ” یہ اس جماعت کے قائد کے فرامین ہیں کہ عرصہ دراز سے جس کی جماعت اور جو خود مختلف طرح کے بد ترین الزامات کی زد میں ہے تو جناب الطاف حسین کے ایسے اندازِ سخن سے ہر باشعو ر شخص باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ خود جناب الطاف حسین اپنے اور اپنی جماعت کے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو رد کرنے اور اپنی جماعت کے تشخص کو بہتر بنانے میں کس قدر سنجیدگی کے ساتھ مصرورف ِ عمل رہتے ہیں وہ کراچی جسے صرف چار دہائیاں قبل غریب کی ماں تصور کیا جاتا اور روشنیوں کا شہرجسے کہا جاتا ایک عرصہ سے اب جنگی کیفیت کا شکا ر ہے کہ جدھر کوئی تاجر بھتہ دیے بغیر اپنا کاروبار نہیں چلا سکتا۔
بوری بند لاشیں کتنی دہائیوں سے وہا ں کے باسیوں کا مقدر ہیں اورگذشتہ کئی دہائیوں سے وہاں کے لوگ امن کی بوند،بوند کو ترستے ہیں مگر وہاں کی ایک ذمہ دار سیاسی جماعت کے قائد کا قوم اور کارکنان سے خطابت کا قرینہ ملاحظہ کیجئے اور اندازِ سیاست دیکھیے اُس لیڈر شپ کا جو ملک بھر کے عام طبقہ کو گاہے یہ نوید سناتی ہے اورگاہے اس موقف پر بضد نظر آتی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ہی پاکستا ن کی وہ واحد سیا سی جماعت ہے جو پاکستان کے عام لوگوں زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔اہل وطن کو یاد ہوگا 12 مئی 2011 ء کا وہ دن کہ جس دن ا فتخار محمد چوہدری سابق چیف جسٹس آف پاکستا ن اپنی معطلی کے دوران کراچی پہنچے تو افتخار محمد چوہدری کو کراچی ائیر پورٹ پر محصور رکھاگیا گویا اُس دن پورا کراچی نو گو ایریا میں بدل دیا گیا۔
اسی دن نہتے عام لوگوں کا خونِ ناحق کراچی کی شاہراہوں پر بکھرا اور بہتا نظر آیا ان دنوں ملک پر ایک آمرجنرل مشرف کی آمریت مسلط تھی جو باوردی صدری بھی تھے اُنہو ں نے اسی دن اسلام آباد میں حلیف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکراپنی سیاسی طاقت کامظاہر ہ کرنے اور قوم کو مکے دکھانے کی غرض سے ایک سیاسی جلسہ منعقد کر رکھا تھا مسلم لیگ (ق) اور چوہدری برادران کا ان دنوں طوطی بولتا تھا اُن سے بڑھ کر جنرل مشرف کیلئے تب کوئی زیادہ اہم نہ تھا کہ جتنے چوہدری برادران ۔جس وقت کراچی کی شاہراہوں پر بے جرم گرتی لاشوں کا بھیانک کھیل کھیلا جارہا تھا عین اُسی وقت اسلام آباد میں” سیاسی آمریت کا ” یہ شو آف پاوراپنے عروج پر تھا اقتدارا ور طاقت کے نشہ میں بد مست باوردی صدر نے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے کھڑے ہوکر ڈھولک کی تھاپ پر اپنے دونوں مُکے فضا میں لہراتے ہوئے صدا بلند کی کہ ” آج میرے سیاسی مخالفین دیکھ لیں اور کسی بھول یا غلط فہمی میں وہ نہ رہیںیہاں عوام کا جم ِ غفیر گواہی دے رہا ہے کہ ہم کس قدر طاقت میں ہیں پھر جوشِ خطابت میں اُنہوں نے فرمایا آج ہم نے یہاںاپنی سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کیا ہے اور کراچی میں ہمارے دوستوں نے ” جنرل مشرف کے اس انداز میں کہے گئے جملوں اور ایسے خطیبانہ لہجے سے کیا تائثرملتا تھا اور تب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین پاکستا ن آرمی پر برہم کیوں نہ تھے ؟ آج جب باقاعدہ ملکی قانون کے تحت اُن کی جماعت کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر رینجر ز نے چھاپہ مارا ہے اور نائن زیرو سے بھاری مقدار میں خطرناک اسلحہ برآمد ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کو مطلوب خطرناک عدالتی مفرور اور اشتہاری مجرم وہیںنائن زیرو سے پکڑے گئے تو اب پاک آرمی اور پاک آرمی کے جرنیل الطاف حسین کے نشانے پر ہیںوہ برہم ہیں۔
خفا اور شکوہ کناں ہیں کہ ان کے خلاف بڑی سازش تیار کی گئی دلیل اس باب میں جناب الطاف حسین کی یہ ہے کہ اسلحہ رینجرز والے کمبلوں میں چھپا کر لئے آئے ان کی اس منطق کو سچ اگر مان لیا جائے، سرتسلیم خم اسلحہ رینجرز والے کمبلوں میں لیپٹ کر نائن زیرو آدھمکے مگر اس شہید صحافی ولی خان بابر اور درجنوںدوسرے بے گناہ لوگوںوحشی قاتلوںکو کون کوڑے دان میں رکھ کر نائن زیرو پھینک کر فرار ہوگیا ؟ بے گناہ الطاف حسین قوم کے سامنے یہ کہانی بھی تو رکھیں ؟وقت کا تقاضا بہرحال یہ ہے کہ ان حالات میں جب پے در پے دہشت گردی کے ہونے والے خونی واقعات کے سبب وطنِ عزیز ایک جنگی کیفیت میں مبتلا ہے کسی زور مساجد میں بے گناہوں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے تو کسی دن سکول میں زیر تعلیم معصوم طلباء و طالبات کے خون سے سفاک قاتل اپنے ہا تھ رنگتے ہیں تو کبھی اقلیّتوں کی عبادت گاہوں میں خود کش دھماکے ہوتے ہیں ان تماتر حالا ت وواقعات کے پیش نظرصرف متحدہ قومی موومنٹ ہی نہیں بلکہ جس بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کے خلاف ایسی پُر اسرار سرگرمیوں کی اطلاعات یا ثبوت ملکی دفاعی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کومیسر آئیں وہ بلاامتیازایسے گروہوں اور جماعتوں کے خلاف کسی بھی طرح کے دبائو میں آئے بغیر ان کے خلاف موئثر کارروائی عمل لائیں تاکہ روز افزوں بڑھتی دہشت گردی کے آسیب اور چنگل سے ہمیشہ کے لئے دھرتی کو آزاد کیا جانا ممکن بنایا جاسکے۔اللہ کے بندو ! کیسے شہر اسی دھرتی کے سینے پر جمگاتے اور آباد تھے اب کے جو برباد ہوئے ، پھولوں کا شہر پشاوربرباد ہوا،روشنیوں کا شہر کراچی ، شمالی علاقہ جات اور خوبصورت کوئٹہ۔
کب تلک آخر مصلحتوں کا شکار ہم رہیں گے دہشت گردی کی اس بلا ئے بد نے پوری قوم کو خوف زدہ اور ہوس باختہ کر رکھا ہے کاروباری طبقہ پریشان حال ہے، لوگ اپنے بچوں کوسکول بھیجتے ہوئے دلوں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں توتلی زبان میں جملے اداکرنے والے ہمارے معصوم بچے خد ا کرے خیریت سے پھر گھروں کو لوٹ آئیں ایک سے دوسرے شہر کا سفر اب گویا عذاب ہے کوئی بھی شخص خوشی سے جسے کرنے کو تیارنہیں ایسی فضا ء میں ہم سانس لینے پرمجبور ہیں کہ جو ہر طرح سے اور چہار اطراف سے گویا خون آلود ہے بہت سی توقعات اس قوم کو اب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ہیں کہ سیاسی مصلحتوں کا شکار اس ضمن میں وہ ہرگز نہ ہوںگے بہت خون بہہ چکا ، بہت مائوں کے لعل بے جرم اس جنگ میں مارے گئے بہت بہنوں کے ویروں کی جوانیاں ظلم کی اس اندھی گھٹا میں تباہ و برباد ہوئیں کہ آج تک گھر کی دہلیزوں پر آنکھیں فرشِ راہ کئے جن کی مائیں ، بہنیں ان کا راستہ تکتی ہیں ہر جگہ ہر شخص سے جن کا پہلا اور آخر سوال یہ ہوتاہے ان کے جگر گوشوںکا قصور کیاتھا وہ کس جرم میں آخر مار دیے گئے ؟ بلا شبہ وہ وقت آ پہنچا ہے کہ ہمیں حادثاتی انداز میں نہیںبلکہ ہو ش و حواس میں رہ کر فیصلے کر نا ہونگے انصاف اور امن کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر دہشت گردی کے پشتیباونوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ لڑنا ہوگاایسے عملی اقدامات کا مظاہرہ حکومت کی جانب سے جذ بہ حب الوطنی کے تحت ایک تسلسل کے ساتھ کیاجانا لازمی ٹھہرا ہے کہ جن اقدامات کے سبب ہمارے دشمن کو یہ پیغام جائے کہ ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں ،ماضی کے زخموں ، دکھوں ، غلط فیصلوں اور تجربات سے ہم نے بہت کچھ سیکھ لیااور ہمیں دنیا پر یہ واضح کرنا ہوگا۔
کہ کسی حادثاتی المیے یا کسی حادثاتی صورت کی پیداوار ہم نہیں بلکہ ایک کاز ، نظریے ، نصب العین اور عملی جدوجہد کے نتیجہ میں ہمار ا وجود قائم ہوا اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا اب کسی بد نیت دشمن کی کوئی سازش کبھی ہمارے خلاف کامیاب نہ ہوسکے گی اوراب کبھی دوبارہ ہمارے وجود سے جدا ہوکر کوئی بنگلہ دیش جنم نہیںلے سکے گارہی بات ایم کیوایم کی تو اب عام تجزیہ اس حوالے سے یہ ہے کہ جب تک رینجرز نے نائن زیرو پر کارروائی نہ کی تھی تو تب تک ایک سیاسی جنگ لوگ شاید اسے تصور کرتے تھے لیکن سامنے کا سچ صرف یہی ہے سنجید ہ طبقہ پہلے بھی اس جماعت کے حوالے سے تحفظات اور شکوک وشبہات اپنے ذہنوں کے اندر رکھتا تھالیکن کچھ لوگ یہ تصور بھی کرتے تھے سانحہ ء بلدیہ ٹائون جس میں فیکٹری کو آگ لگائے جانے سے 267 بے جرم انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں تھیں اس واقعہ پر جے آئی ٹی کی رپورٹ (کچھ لوگوں کی نظر میں شاید) سیاسی انتقام کا ایک طریقہ کار تھالیکن اب جب کہ جس دن سے نائن زیرو پر سے اس قدر بھاری مقدارمیں اسلحہ برآمد ہوا ہے ، عدالتی سزا یافتہ مفرور اور بے گناہ انسانوں کے قاتل بھی وہیں سے گرفتار ہوئے ہیں اب اس روز سے ہر خا ص و عام متحدہ قومی موومنٹ کے کردار اور وجود کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے اورلوگ اب مکمل یقین کرتے جارہے ہیں کہ واقعتا متحدہ قومی موومنٹ پر عرصہ دراز سے لگاجانے والے اغواء برائے تاوان سے لے کر بھتہ خوری ، قبضہ مافیا اور ٹارگٹڈکلنگ کے الزامات سو فیصد سچ اور مبنی بر حق تھے۔ اب میں نہیںمانتا یا میں نہیں جانتا کی یہ رٹ فضو ل ہے اب حقائق سے پرد ہ اٹھ چکا اور بہت پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکاشاید؟
تحریر: لقمان اسد