تحریر : وقارانسا
کہا جاتا ہے کہ شوشل میڈیا نے آج کی نوجوان نسل کو تباہ کر دیاہے – دیکھا جائے تو اس بات سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے فرار ممکن ہے – لیکن اس کے ساتھ اس کے مثبت استعمال نے آگاہی اور شعور بھی عطا کیا ہے- یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کو کس طرح سے استعمال کرتا ہے- آج کے تیز رفتار دور میں جہاں کتب بینی کا شوق مفقود ہو کر رہ گیا ہے وہاں انٹر نیٹ نے بہت سہولت بھی دے رکھی ہے ہر انسان اپنی پسند اور رجحان کے مطابق اس سے فوری استفادہ کر لیتا ہے -بڑے مضامین کے علاوہ کے علاوہ چھوٹی چھوٹی خوبصورت پوسٹ بھی علم میں اضافے کا موجب بنتی ہیں- اور انسان ان سے بہت کچھ سیکھتا بھی ہے کالم اور مضامین ہوں یا افسانہ اور کہانی-قارئین کے لئے ان کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔
ایک لکھاری بھی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق ان باتوں کو سامنے لانا چاہتا ہے جس کے پس پردہ کسی کی سنائی ہوئی بات کسی کی بات کا مفہوم یا معاشرتی حالات اور واقعات ہوتے ہیں جو دل پر اثر کرتے ہیں تو وہ اس پر قلم اٹھا لیتا ہے اور یوں روز مرہ زندگی کے واقعات اور مسائل لفظوں میں ڈھل جاتے ہیں – جو بالاخر کسی کالم یا کہانی کا روپ دھار لیتے ہیں اب لکھنے والا اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق کوئی بھی موضوع منتخب کر لیتا ہے – جس کو وہ سمجھتا ہے کہ یہ ایسا موضوع ہے جس کو لکھنا ضروری ہے -اور اس سے لوگوں کی اصلاح ہونا متوقع ہوتا ہے۔
زندگی میں بعض اوقات معمولی رویے گہری چوٹ دیتے ہیں وہ ان سب رویوں سے ہونے والی پریشانیوں اور پیچیدگیوں کو موضوع سخن بنا کر اصلاح احوال کی دعوت دیتا ہے – اگراس کی کوشش باآور ثابت ہو اور کوئی ایک انسان بھی خود کو سدھار لے تو سمجھیں اس کو اپنی محنت کا صلہ مل گیا اب قارئین بھی اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق پڑھ رہے ہوتے ہیں ہر ایک کا سوچ کا زاویہ الگ ہے ایک وقتی طور پر ملول انسان کسی اداس تحریر کو پڑھ کر رو بھی سکتا ہے اور اچھے خوشگوار موڈ والے کو پڑھتے ہوئے اس میں کوئی درد محسوس نہیں ہوتا -اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان فطرتا بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔
اسلئے رشتے خاندانی معاملات اور تعلقات کے حقائق پر مبنی تحریر کسی میں احساس بھی جگا سکتی ہے – اور اس کو خود احتسابی کا موقع بھی دیتی ہے-اگر کسی تحریر کو پڑھ کر اس کے کسی کردار میں اپنی ذات نظر آئے تو یہ ایک مثبت رویہ ہے اگر وہ کردار پڑھ کراپنی کسی خامی یا کسی سے ہونے والی زیادتی کا احساس ہو کہ جیسے وہ کردار آپ ہی ہیں تو پھر مبارک ہو! آپ کا ضمیر ابھی زندہ ہے ان خامیوں کو دور کیا جا سکتا ہے اور زندگی کو آسان بنایا جا سکتا ہے اکثر لوگوں کوبے موقع بے محل سچ کا دعویداربننے کی عادت ہوتی ہے اور یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ پیٹھ پیچھے کسی کی بات کر کے اس کو سچ کہہ کر بیان کر دیا جا تا ہے۔
حالانکہ ان کا یہ سچ بعض جگہوں پر ماچس کی تیلی کے علاوہ اور کسی مقصد کے لئے نہیں ہوتا اور اس بات کی وجہ سے رشتے اور تعلقات بگڑ جاتے ہیں – کیونکہ حساس رشتوں کے درمیان بیٹھ کر فساد کی نیت سے بولا جانے والا سچ بہت سے اچھے رشتوں کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے بعض اوقات لوگوں کو بیجا تنقید کی بھی عادت ہوتی ہے- جو سب سے پہلے اچھے تعلقات کا سر قلم کر دیتی ہے اور کچھ تنقید کے بجائے تضحیک پر بھی اتر آتے ہیںجہاں تنقید ضمیر کو مخاطب کرتی ہے وہاں تضحیک عزت نفس کو- تنقید سے انسان کچھ جاننا چاہتا ہے اوریہ جواب کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔
جبکہ تضحیک کا مقصد بھڑاس نکالنا بھی ہوتا ہے اور یہ خاموشی کا تقاضہ کرتی ہے -یہ سب عام فہم باتیں ہیں جن کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کبھی کچھ پڑھ کر ایسا محسوس ہو گویا کسی نے آپ کے لئے لکھا ہے تو اپنا احتساب کیجیئے-اس کا مقصد ہے کہ آپ کو اپنی اصلاح کی ازحد ضرورت ہے انسان ہونے کے ناطے ھم میں بے شمار غلطیاں ہیں جن کو دور کر کے ایک اچھا انسان بنا جاسکتا ہے اور ایک پر سکون معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے وہ ایک گھر ہو ایک خاندان ایک برادری ہو قطرے قطرے سے ہی پھر دریا بنتا ہے -تو پھر کیجیئے اپنا احتساب۔
تحریر : وقار انسا