اللہ پاک نے انسان کو حیران کر دینے والی صلاحیتوں کیساتھ دنیا میں بھیجا۔ اسے مختلف رنگ روپ دیئے اسے جدا گانہ نین نقش دیئے، اسے کتنی مختلف آوازوں سے نوازہ ،اسے ایک سے بڑھ کر ایک خوبیاں عطا کیں اسے بڑے سے بڑا غم جھیلنے کی ہمت دی اسے بڑی سے بڑی خوشی کو سنبھالنے کا حوصلہ دیا، ایک چھوٹا سا دل بھی دیا جو کبھی نہ کبھی ضرور اپنی من مانی کرنے کو ایک بچے کی طرح مچلتا ہے۔ اب اس کی ننھی ننھی خواہشوں کو اگر قابو کر لیا جائے اور جائز اور ناجائز کی حدود میں باندھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کی بے ضرر خواہشات کو پورا بھی کر لیا جائے .جیسا کہ نبی پاک ﷺنے بھی فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ”لوگو تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے۔
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حق کا دائرہ وہاں پر ختم ہو جاتا ہے جہاں کسی اور کے حق کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یعنی یہ کہنا بلکل ٹھیک رہے گا کہ آپ کے ہاتھ کی پہنچ وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے اگلے کی ناک شروع ہوتی ہے ۔ آج کل نیٹ کا زمانہ ہے اس ٹیکنالوجی کو اور آگے سے آگے بڑھنا ہے ، بہت سے پردے ہمارے آنکھون سے ہٹ رہے ہیں۔ یہ نیٹ انہیں بھی میسر ہے جو دن رات ہر طرح کے کاموں میں ملوث ہیں اور انہیں بھی جو مشکل سے اسے آن کرنا ہی جانتے ہیں۔ اس صورت میں کیونکہ سب لوگوں کا آئی کیو لیول ایک سا نہیہں ہوتا اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے ملک میں ویسے بھی خواتین کا ہر کام کرنا ایک ہوّا بنا لیا جاتا ہے ایسے میں فیس بک کی دنیامیں خواتین کو دیکھنا ان کے لیئے ایسے ہی ہوتا ہے
جیسے ٹافیوں کی دکان پر بے شمار ٹافیاں پڑی ہوں ،دکان کا مالک انہیں نظر نہ آ رہا ہو اور کوئی سمجھ لے کہ اسے دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں ہے ،لہذا جتنی چاہے ٹافیاں اٹھا کر فرار ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مالک کسی خفیہ مقام سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہو اور پتہ اس وقت چلتا ہے جس اس کی گردن پر ایک زور کا ہاتھ پڑتا ہے ۔ ان میں اکثر زنانہ نام تو زنانے مردوں نے فرضی طور پر اختیار کیئے ہوتے ہیں ،جنہیں ہم فیک اکاؤنٹس کہتے ہیں یہ وہ زنانے کردار ہیں جو خاتون بنکر کسی بھی مرد کی بینڈ بجانے کا کام کرتے ہیں ۔ اس میں ان کا مردوں سے نازیبا گفتگو ، گھروں کے حالات تک رسائی ،ان کے اغوا اور اب تو قتل کی وارداتوں تک بات پہچ چکی ہے۔
لیکن اس کے لیئے ٹیکنالوجی ذمہ دار نہیں ہے یہ تو ختم کبھی نہیں ہو گی بلکہ مذید جدید شکل اختیار کرتی جائی گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اسے سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا ہی خیال کیا جائے اپنے بیڈ روم یا کسی نیٹ کیفے میں چھپ کے اس پر بات کرنے کو یہ نہ مسمجھ لیا جائے کہ کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا یا کوئی آپ کو نہیں پڑھ رہا یا نہیں پکڑ سکتااور آپ جو چاہیں گل کھلاتے رہیں ۔ یاد رکھیں یہ وہ اعمال نامہ ہےجو ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے ہیں۔
یہ وہ کمبل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ کسی بھی خاتون کو یہ کہنا تو آپ کو بڑا کمال لگتا ہے کہ” میں آپ کو بیسٹ فرینڈ بنانا چاہتا ہوں” لیکن جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ” کیا یہ سہولت آپ نے اپنی بہن کو بھی مہیا کر رکھی ہے” تو فورََا حضرات کی دم پر ایسا پاؤں پڑتا ہے کہ الامان اور الحفیظ ۔ ایک منٹ میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ مرد کس ذہنیت کا مالک ہے۔
بھئی اپنے کام کی بات کرو کام سے مطلق سوال کرو اور اپنی عزت اپنے ہاتھ میں رکھو ۔ اپنے ہاتھ کو دوسرے کی ناک تک پہنچاؤ گے تو جواب تو سننا ہی پڑیگا. ان لوگوں کو جب کسی دوسرے میں ڈھونڈنے پر بهی کوئ عیب نہ ملے تو یہ فوراً دوسرے کی فزکس پہ جملہ بازی فرمانے لگیں گے. یہ کالا ہے یہ موٹا ہے. .یہ ناٹاہے .یہ لمبا ہے.یہ.بهینگا ہے بلا بلا بلا. جب بهی کوئ آپ کی ذات پہ ایسی بات کرے تو فوراً سمجه جائیں کہ انہیں آپ میں کوئی اور عیب نہیں مل سکا. اور اپنی جلن مٹانے کے لئیے یہ سب کہہ رہے ہیں. ویسے بهی انگور کهٹےہوں تو انسان کامنہ تھوڑی دیر کے لیئے تو سکڑ ہی جاتا ہے
جب تک آپ ایسے مردوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہیں یا خاموش رہیں یہ خواتین کو میم ، میڈم، محترمہ کہتے رہیں گے جیسے ہی آپ نے انہیں کسی بات سے منع کیا تو فوراً سے پیشتر اپنی اوقات آپ کو دکها دینگے. اور اپنی زبان سے اپنے خاندان کا تعارف بهی پیش کر دینگے. .لہذا ہم تمام خواتین کو یہ بات زہن نشین کر لینا چاہیئے .کہ جھوٹی تعریف میں کبهی اپنا دماغ خراب نہیں ہونے دینا چاہیئے..اور بے مقصد اور بے تکی باتوں کا جواب دینے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے. تاکہ کسی کا بهی ہاته ہماری ناک تک نہ پہنچ سکے.اور ہم بھی اپنا ہاته انکی ناک سے دور رکھیں