امریکی میڈیا نے نیویارک کے علاقے مینہیٹن میں دہشت گردی کے واقعے میں آٹھ افراد کی ہلاکت کے بعد اس حملے میں مرکزی ملزم کا نام سیف اللہ سائپوف بتایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ 2010 میں ازبکستان سے امریکہ آئے تھے اور ملک میں قانونی طور پر مقیم تھے۔سیف اللہ سائپوف فروری 1988 میں پیدا ہوئے۔ امریکہ میں گرین کارڈ حاصل کرنے کے بعد وہ اوہائیو، فلوریڈا اور نیو جرسی میں مقیم رہے۔
نیویارک میں ٹرک ڈرائیورنے راہگیروں کو کچل دیا، 8 افراد ہلاک
کیا ہلیری کلنٹن اسامہ بن لادن سے ملی تھیں؟
امریکہ میں مقیم ازبک برادری سے تعلق رکھنے والے مذہبی کارکن اور بلاگر میر اخمت مومنوف نے بی بی سی کو بتایا کہ سیف اللہ شادی شدہ تھے اور ان کے تین بچے تھے۔ ان کے مطابق سیف اللہ امریکہ آمد کے بعد انٹرنیٹ پر شدت پسندی کی جانب راغب ہوئے۔وہ اوہائیو میں سیف اللہ سائپوف سے ملے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (سیف اللہ) زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے اور امریکہ آنے سے قبل انھیں قرآن کے بارے میں بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ یہاں آنے کے بعد ابتدا میں وہ عام سے آدمی تھے۔‘تاہم مومنوف کا کہنا ہے کہ سیف اللہ اپنی برادری سے دور جاتے رپے اور بطور ڈرائیور کام نہ ملنے کی وجہ سے وہ زیادہ غم و غصے میں مبتلا ہوتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپنے شدید نظریات کی وجہ سے وہ اکثر ازبک برادری میں لوگوں سے بحث کرتے تھے اور آخرکار وہ فلوریڈا منتقل ہوگئے۔ اس کے بعد سے میرا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔‘مومنوف کا کہنا ہے کہ امریکہ میں تقریباً ستر ہزار ازبک افراد مقیم ہیں جن کی اکثریت نیویارک میں رہتی ہے اور کچھ حصہ فلوریڈا کے شہر اورلینڈو، شہر شکاگو اور کچھ ریاست اوہائیو میں ہیں۔اس سے قبل سیف اللہ کو گذشتہ سال ریاست میزوری میں ایک ٹریفک جرمانے کی وجہ سے گرفتار بھی کیا گیا تھا۔نیویارک ٹائمز کے مطابق سیف اللہ امریکہ میں جب آئے تو انھیں انگریزی نہیں آتی تھی اور وہ ٹرک یا اوبر ڈرائیور بننے کی کوشش کر رہے تھے۔
چند سال قبل سیف اللہ سے ملنے والے ایک ازبک امیگرینٹ کوبلیجون متکاروف نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں اسے جانتا تھا تب وہ بہت اچھا انسان تھا۔ اسے امریکہ پسند تھا اور وہ ہر وقت خوش رہتا تھا۔ وہ دہشتگرد نہیں لگتا تھا مگر میں اسے اچھے سے نہیں جانتا تھا۔‘واشنگٹن پوسٹ کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ سیف اللہ سائپوف گولیوں سے لگے زخموں کی تاب لا پائیں گے اور تفتیش کاروں کو موقع مل جائے گا کہ وہ ان کے مبینہ مقاصد کے بارے میں جانچ کر سکیں۔اخبار کا کہنا ہے کہ بظاہر اس حملے میں وہ تنہا حملہ آور تھے جو کہ ’دولتِ اسلامیہ سے متاثر ہوئے لیکن (انھیں) براہِ راست احکامات نہیں ملے۔‘اور یہی رائے نیو یارک کے گورنر اینڈرو کومو کی بھی ہے جنھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کسی بڑے حملے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک فرد کے اعمال ہیں جن کا مقصد درد اور نقصان پہنچانا تھا اور شاید قتل کرنا۔‘حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گاڑی میں سے ملنے والے ایک پیغام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا حوالہ موجود ہے۔
دیگر رپورٹس کے مطابق حملہ آور نے گاڑی سے اترتے وقت ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔اطاعات کے مطابق ازبکستان کی وزارتِ خارجہ اس بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا سیف اللہ سائپوف ازبک نژاد تھے۔ گذشتہ 20 سالوں میں ازبکستان نے اسلامی شدت پسندی کے خلاف سخت لائن لے رکھی ہے۔اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ سیف اللہ ازبک ہی ہیں، تو وہ وسطی ایشیائی ملک سے آنے والے پہلے شخص نہیں ہوں گے جسے امریکہ میں دہشتگردی کے حوالے سے الزامات کا سامنا ہو۔ گذشتہ ماہ ایک اور ازبک نژاد شخص کو دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور سابق صدر اوباما کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کے جرائم میں 15 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔