تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
آزادکشمیر کے الیکشن میں نوازلیگ نے کلین سویپ کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ اب بھی پاکستان کی مضبوط رترین جماعت ہے ۔ یہ نوازلیگ کی انتخابی سیاست کی ہیٹ ٹرک تھی ۔ پہلے 2013ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے اقتدار کی سب سے اونچی مسند سنبھالی ، پھر گلگت بلتستان کی حکومت کا تاج اپنے سَر پہ سجایا اور اب آزادکشمیر میں 41 میں سے 32 سیٹیں حاصل کرکے تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔ لوگ کہتے ہیں کہ انتخابی نتائج سے بھی زیادہ حیران کُن کپتان صاحب کا بیان ہے جس میں اُنہوں نے نہ صرف انتخابی نتائج تسلیم کیے بلکہ نوازلیگ کو مبارک بادبھی دی لیکن ہمیں توکوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے کپتان صاحب تو یوٹرن کے ماہر ہیں ۔وہ جب بھی جی میں آئے گا ، دھاندلی ، دھاندلی کاشور مچاتے سڑکوں پر نکل آئیں گے اور عوام کومفت میں تفریح مہیا ہوجائے گی کیونکہ اُن کے جلسے ، جلسے کم اور میوزیکل کنسرٹ زیادہ ہوتے ہیں ۔
2013 ء کے عام انتخابات میںبھی اُنہوں نے میاں نوازشریف کو انتخابی کامیابی پر مبارک باددی تھی لیکن پھر شیخ رشیدجیسے صلاح کاروں کے مشورے پردھاندلی کاایسا شور مچایاکہ نگران مرکزی حکومت سے لے کر چڑیاوالے صاحب تک اور الیکشن کمیشن سے لے کر چیف جسٹس تک سبھی کو ایک ہی ہَلّے میں بے ایمان قرار دے ڈالا ۔ تب سے اب تک وہ کسی نہ کسی حوالے سے نوازلیگ کو بے ایمان قرار دیتے چلے آرہے ہیں حالانکہ اُنہی کی ضِد پربنائے گئے سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے بھی نوازلیگ کو بے گناہی کا سرٹیفیکیٹ عطاکر دیا ۔اب پاناما پیپرز کابہانہ بناکر وہ ایک دفعہ پھر 2014ء کے دھرنوں کی تاریخ دہرانے کے لیے پَر تول رہے ہیں ۔ اُنہوں نے 7 اگست کو سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کر دیاہے ۔ 2014ء میں بھی اگست ہی کا مہینہ تھا جب خاںصاحب بڑے طمطراق سے عازمِ اسلام آباد ہوئے ، ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنا بھی دیا لیکن ”کَکھ” ہاتھ نہ آیااور وہ بے نیل و مرام لوٹ آئے۔
تب اُنہیں ایک کامیابی البتہ ضرور حاصل ہوئی کہ اُنہوں نے ”شادی کرلی” اور ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگادیا” کون کہتاہے کہ تبدیلی نہیں آئی ، میرے گھر میںتو تبدیلی آگئی ہے ”۔ سونامیے بھی گلی گلی شورمچاتے پھر رہے تھے کہ تبدیلی آ نہیں رہی ، تبدیلی آ گئی ہے۔ کچھ سونامیے تویہ بھی کہتے تھے ”بھابی آنہیں رہی ، بھابی آگئی ہے”۔ اب کی باربھی اُن کی شادی کی افواہیں گرماگرم ،دھرنا بھی تیار اورمہینہ بھی اگست کا اِس لیے سونامیے ایک اور ”تبدیلی” کے لیے تیار رہیں کہ تاریخ اپنے آپ کودہرانے جارہی ہے۔
کپتان صاحب نے آزاد جموںوکشمیر کے انتخابات میںزور تو بہت مارااور دعوے بھی بڑے بڑے کیے لیکن تحریکِ انصاف کو پھربھی بدترین شکست کاسامنا کرناپڑا اور پورے آزادکشمیر میںسے اُن کے ہاتھ ایک بھی سیٹ نہ لگی ، البتہ پاکستان میں آزادکشمیرکی 12 سیٹوں میںسے 2 سیٹوںپر اُن کے امیدوار کامیاب ہوئے ۔ ایک سیٹ پشاورسے ملی اوردوسری لاہورسے ۔ دراصل آزادکشمیر کے انتخابات میں کپتان صاحب کی سوئی میاںنواز شریف پرہی اٹکی رہی اوروہ پاناما پیپرزکا بہانہ بناکر الزامات کی زنبیل کھول کربیٹھ رہے ۔ اُنہوںنے آزادکشمیرکی ترقی کے لیے کوئی بات کی ، نہ وہاںکے مسائل کوحل کرنے کے لیے کوئی پروگرام دیا ۔ اَس کے علاوہ اُنہوں نے بیٹھے بٹھائے یہ بھی فرمادیا کہ اگر فوج آتی ہے تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے ۔ اُن کے اِس بیان کابھی منفی اثرہوا جبکہ دوسری طرف نوازلیگ کے اکابرین بہ اندازِ حکیمانہ آزادکشمیرکی تعمیر وترقی کا ایجنڈاعوام تک پہنچاتے رہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریکِ انصاف میںتازہ تازہ شمولیت اختیار کرنے والے بیرسٹر سلطان محمود بھی ہارگئے جنہوںنے گزشتہ 25 سالوں میںکبھی شکست کامُنہ نہ دیکھاتھا ۔
انتخابات میں کلین سویپ سے اگلے دِن میاں نواز شریف صاحب بھی ” اِن ایکشن” ہوئے اور آزادکشمیر کے عوام کاشکریہ اداکرنے مظفرآباد جاپہنچے ۔ یہ طویل بیماری سے شفایاب ہونے کے بعداُن کی سیاست میںپہلی” اِنٹری” تھی ۔ مظفرآباد میںخطاب کرتے ہوئے اُنہوںنے کپتان صاحب پریوں چوٹ کی ”تبدیلی دھرنے سے نہیں ، کچھ کرنے سے آتی ہے”۔
اُدھر ہمارے نوخیزبلاول زرداری ہیںجنہیں اُن کے و الدِ گرامی ”ایویں خوامخواہ” وقفِ مصیبت کرکے خود ”اُڑن چھو” ہوگئے ۔ آجکل وہ بیچارے ”وَخت” میں پڑے ہوئے ہیں ۔ آزادکشمیر کی انتخابی مہم میں زورتو اُنہوںنے بھی بہت مارااوررَومن اُردومیں لکھی ہوئی تقریریں کر ، کر کے اپنا گلا بٹھالیا لیکن ہاتھ اُن کے بھی ”کَکھ” نہ آیااور پیپلزپارٹی کوبھی صرف 2 ہی سیٹیں ملیں ۔ ایک اُن کے گھرسندھ (کراچی) سے اوردوسری آزادکشمیرسے ۔ گزرے پانچ سالوںمیں آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جسے کشمیری عوام نے یکسر مسترد کردیا ۔ سچ ہے کہ” جیسا کروگے ، ویسا بھروگے”۔ پانچ سالوںمیں پیپلزپارٹی کی حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہی جس کا عوام نے بھی اُسے خوب مزہ چکھایا ۔ اب بلاول صاحب دھاندلی کاشور مچاتے ہوئے انتخابات کو تسلیم نہ کرنے اورسڑکوں پرنکلنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔
شاید اعتزاز احسن اورشیخ رشید کی یہ خواہش پوری ہوجائے کہ کَل کلاں عوام عمران خاںاور بلاول زرداری کوایک ہی کنٹینر پرسوار دیکھیں ۔ ویسے توتقریباََ تمام سیاسی جماعتیں عمران خاںکے 7 اگست کے احتجاج کویہ کہہ کر مسترد کرچکی ہیں کہ ”سولو فلائیٹ” کے شوقین عمران خاںنے کسی بھی اپوزیشن جماعت سے مشورہ کیے بغیر7 اگست کواحتجاجی تحریک کااعلان کیاہے اِس لیے اُن کا اِس سے کچھ لینا دینانہیں ۔ لیکن سیاست میںکچھ بھی ممکن ہے ۔ خصوصاََ پاکستانی سیاست میںتو ”ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے”۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر