گزشتہ کچھ عرصے سے جوان لڑکیوں اور خواتین پر تیزاب پھنکنے کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ عورت اگر ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو بھی اُسے ہی رسوا کیا جا تا ہے۔ حکومت خاموش تماشائی ہے اور عبرتناک سزا دے کر اس کو ختم نہیں کرتی۔
”گھریلو جھگڑے پر شوہر نے بیوی پر اور نامعلوم افراد نے بازار میں ماں بیٹی پر تیزاب پھینک دیا“۔ ”نوجوان نے لومیرج کی ہوئی تھی چند دن بعد اس کی بیوی ناراض ہو کر اپنے میکے آگئی۔ شوہر اسے لینے گیا تو اس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا جس سے مشتعل ہو کر اس نے بیوی پر تیزاب پھینک دیا ۔ یہی نہیں بلکہ ”نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر چالیس سالہ ماں اور اس کی اٹھارہ سالہ بیٹی جو صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں ان پر تیزاب پھینک دیا جس سے ان کے چہرے ، ہاتھ اور جسم کا کافی حصہ جھلس گیا۔ “ وغیرہ وغیرہ
یہ اور اس سے ملتی جلتی خبریں آئے دن منظر عام پر آتی ہیں۔دراصل خواتین اورلڑکیوں پر تیزاب پھینکنے کے یہ واقعات نئے نہیں ہیں بلکہ کافی عرصہ سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ حالیہ دنوں اس قسم کے متعدد واقعات نے خاص وعام کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ ملک میں خواتین پر تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔کبھی اُسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے تو کبھی اُس پر بے جا تشدد کیا جاتا ہے اور اب تیزاب سے جلائے جانے کے واقعات نے بھی خواتین کو موجودہ دور کا مظلوم ترین طبقہ بنانے میں کسر نہیں چھوڑی ۔
بہن ، بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت میں عورت یہ ظلم سہتی چلی آرہی ہے۔ مرد ذرا سی بات کو انا کا مسئلہ بنا کر اُلجھ پرتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے جس کا ذکر کبھی صرف کہانیوں اور کتابیوں میں ملا کرتا تھا۔
کون کہہ سکتا ہے کہ بارہ تیرہ سالہ لڑکی جو ابھی اپنی تعلیم کے ابتدائی مراحل میں اور صرف اس وجہ سے حالات کو شکار ہو جائے کہ اس کے والدین اس کے لئے آئے ہوئے رشتے کو غیر برادری کی وجہ سے مسترد کریں اوروہ لڑکا غصے میں آکر لڑکی پر تیزاب پھینک دے۔
رشتہ دیکھتے ہوئے ہر والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی اپنے گھر میں سکھی رہے۔ چنانچہ جہاں ذات پات اور خاندان شادی کرنے میں اہم اُمور کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں اس رشتے کا نامنظور کیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں لیکن اس فیصلے نے لڑکی کی زندگی پر بد دقسمتی کی مہر ثبت کر دی ۔ اس کی زندگی اور مستقبل دونوں داوٴ پر لگ گئے۔ حالیہ دنوں نشے کے عادی شوہر نے پیسے دینے سے انکار پر بیوی اور اپنے بچے پر تیزاب پھینک دیا۔ متاثرہ خاتون کا قصور یہ ہے کہ وہ نشی شوہر کی بیوی ہے اور لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بچوں کی پیٹ پوجا کرتی ہے۔بد قسمتی سے یہ سماجی عوامل عالمی سگح پر ہماری بھی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کہ پاکستان تو ہر میدان میں سرفہرست ہے اور دنیا کی نظر میں پاکستان کا امیج اس بری طرح پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ احترام نہیں کیا جاتا۔ ان کا استحصال کیاجاتا ہے اور یورپ، برطانیہ اور بھارت سمیت خواتین پاکستان کے کہیں زیادہ مردوں کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں لیکن ان کا میڈیا واقعات کی رنگ آمیزی میں نہیں اُلجھتا۔ بہر حال یہ ایک الگ ایشو ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پاکستان میں 70 فیصد عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک نجی تنظیم کے مطابق یہ تشدد مار پیٹ، ذہنی اذیت، چاقو، چھری سے زخم لگانے اور تیزاب سے جلانے سے کیاجاسکتا ہے
عورت اگر ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو اُسے زندہ درگور کر دینے مٰن کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی اور وہ ساری زندگی مردوں کے اس نام نہاد معاشرے میں روایات کی پاسداری کرتے ہوئے گزار دیتی ہے۔
معروف قانون دان حنا حیلانی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے زندہ رہنے کا حق ان کے سماجی رواج اور ورایات کی تابعداری کرنے سے مشروط ہے۔
حالیہ دنوں کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے اس قسم کی واردتیں ہوئیں۔ وہ موٹر سائیکل سواروں نے مستونگ ٹاوٴن (کوئٹہ) مارکیٹ میں دو ٹین ایجر لڑکیوں پر تیزاب پھینک دیااور اس سے ایک دن پہلے چارخواتین جن کی عمریں 18 سے 50 سال کے درمیان تھیں اس قسم کی واردات کا شکار ہوئیں۔
دونوں متاثرہ لڑکیوں کی ماں ناز بی بی کا کہنا ہے کہ عموماََ اس قسم کے واقعات میں حملہ کرنے والے اور متاثرہ افرادکا کوئی نہ کوئی ربط ہوتا ہے لیکن ہمارے وہم وگمان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں اور یہ نامعلوم افراد کون تھے انہیں پکڑنا پولیس کا کام ہے۔
کچھ عرصہ بیشتر جب خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان میں ایسے واقعات پیش آئے تھے تو اپنے دفاع میں حملہ آوروں کا کہنا تھا کہ سکول جانے والی بچیوں پر چہرہ نہ ڈھانپنے کی وجہ سے ا ن پر تیزاب پھینکا گیا تھا۔ اس قسم کے واقعات دور جاہلیت کی یاد تازہ کراتے ہیں جوانسانیت کی اہمیت سے بے چہرہ لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
ایک ایسے دور میں جب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے مہمیں اور تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔پاکستان میں صورت حال ایسی کیوں ہے؟ بیشتر واقعات میں جرم کا ارتکاب کرنے والے لڑکے ہوتے ہیں جومعمولی سی بات کو انا کا مسئلہ بناکر خواتین کا مستقبل تباہ کر دیتے ہیں۔
تیزاب پھینکنے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے سائیکاٹرسٹ جاوید صائم نے بتایا کہ خاندانی اختلافات ،آپس میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا، ٹین ایجر کا کسی دوسرے شخص سے محبت کرنا ، ذات برادری کے مسائل ، مالی مسائل، تعلیم کی کمی اور جائیداد خاندان میں رہے جیسے عوامل اس قسم کے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔مجرم متعدد مسائل کا شکار ہو کر اس فعل کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ تیزاب سے متاثرہ اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے حوالے سے شرمین عبید نے ”سیونگ فیس“ کے نام سے ایک ڈاکو کو منٹری بنائی جس میں انہوں نے اس حوالے سے خاصی کامیابی حاصل کی اور انہیں آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس سلسلے میں نجی این جی اوز بھی کام کر رہی ہیں ۔مسرت مصاح کی این جی او دی ڈپلیکس سمال اگین میں تیزاب سے متاثرہ خواتین کا علاج کا جاتا ہے ۔ متعدد خواتین اب تک صحت یاب ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اس طرح کی چند دیگر تنظیمیں ملک کے مختلف حصوں میں تیزاب یامٹی کے تیل کے متاثرین کو مفت سرجری بحالی اور پیشہ وارانہ تربیت کی سہولیتں فراہم کر کے ان کی مدد کر رہی ہیں۔
ٓ المیہ یہ ے کہ قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے۔ ناقص پالیسی ، ریاستی بے تو جہی، امتیازی قوانین اور پولیس فورس شامل بہت سے افراد اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سوچ کو بدلا جائے جس کے تحت خواتین پر تشدد کرنے اور ایسے حالات کی نوبت ہی نہ آئے عورت کے احترام کے جذبے کو فورغ دیاجائے۔ لہٰذہ ہر پہلو پر غور و خوض کرتے ہوئے حکومت، متعلقہ حکام ، قانون ساز ادارے تیزاب پھینکے اور تشدد کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات کرے تو شاید ایسی نوبت نہ آئے۔ اس سلسلے میں این جی اوز ، ذرائع ابلاغ، خطیب اور عوام بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔