ہماری مادری اور پیاری زبان اردو کا ایک حرف ہے”ن“ اور اس کا ایک لفظ ہے ”نہ/نا“ اس کی خصلت بھی لفظ ”بے“ اور غیر سے ملتی جلتی ہے، جہاں آجائے اکثر آئندہ آنے والے الفاظ کو بے توقیر اور مشکوک کر دیتا ہے۔ جیسا کہ نا امید، نا مناسب، نا معلوم، نا سمجھ، نامعقول وغیرہ۔ کچھ مقام ایسے بھی بہرحال موجود ہیں جہاں اس لفظ کا سابقہ آئندہ لفظ کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے؛ جیسے ناگزیر، ناخدا، ناقابل تسخیر، ناقابل تردید، نامور وغیرہ۔
سوشل میڈیا پر انور مقصود کی ایک ویڈیو ”انور نامہ“ گردش کر رہی تھی جس میں وہ عالم برزخ سے آئے خط جالب میں حال برزخ اور حال و مستقبل پاکستان بیان کر رہے تھے۔ کہنے لگے، قائد اعظم، فاطمہ جناح، رئیس امروہوی اور جالبؔ محو گفتگو تھے۔
قائد نے سوال کیا، رئیس مہاجروں کا کیا حال ہے؟ جواب ملا لندن میں تو مہاجر خوش ہیں مگر کراچی میں مہاجروں کا حال تباہ ہے۔ بات یہ ہے قائد جب تک ” نون“ کی حکومت ہے یہ پریشان ہی رہیں گے اور مجھے نون کی حکومت جاتی نظر نہیں آتی۔ اگلے الیکشن میں بھی لگتا ہے یہی جیتیں گے۔ جس کی وجہ ہے مسلمان میں نون، پاکستان میں نون، پاکستان کے صدر ممنون میں نون، پاکستان کے وزیراعظم خاقان میں نون، پاکستان کے قانون میں نون، پاکستان کے میزان میں نون، سرکاری افسران میں نون، نیب تو شروع ہی نون سے ہوتی ہے، نیشنل بینک آف پاکستان شروع نون سے ہوتا ہے اور نون پر ہی ختم ہوتا ہے۔ تو میں (جالب) نے کہا اس طرح تو بے ایمان میں نون، بجلی کے بحران میں نون، تعلیم کے فقدان میں نون، پنجاب کے ہر پہلوان میں نون۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں ہزاروں بے گناہ مار دیتے ہیں۔ فاطمہ جناح نے کہا، مسلم لیگ نون دہشتگردوں کے خلاف کیوں نہیں کھڑی ہوتی؟
رئیس بولے، صرف اس لیے محترمہ کہ طالبان میں بھی نون ہے۔ خدا حافظ کہہ کر رئیس چلے گئے۔ قائد اعظم نے کہا اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ محترمہ نے کہا، آمین۔ میں نے کہا، محترمہ! آمین میں بھی نون ہے۔ یہ کہہ کر میں چلا آیا۔ اتنا طویل خط میں نے پہلے کبھی نہیں لکھا، مگر قائد اور رئیس کی باتیں تمہیں سنانا چاہ رہا تھا۔
تمہارے یہاں ”نا آنے“ کا طالب، جالب۔“
اس مبینہ خط میں ایک لفظ نون کی بے حد تکرار ہےاور یہ نون کوئی عام نون نہیں، بلکہ حکمران جماعت مسلم لیگ نون ہے۔ اس نون کے لاحقے والی جماعت کی آج کل نون کے سابقے سے خاص آشنائی سنائی دکھائی دے رہی ہے۔ جماعت کے تازہ تازہ بنے قائد جن کے نام پر جماعت کا نام مسلم لیگ نواز ہے۔ حال ہی میں جماعت کی صدارت سے ” نااہل“ قرار دیے گئے ہیں، یہ نااہلی وزارت اعظمیٰ سے ”نا بیان کردہ قابل وصول تنخواہ“ کی بابت نا اہلی کی ”ضمنی نااہلی“ ہے۔ میاں صاحب کی تیسری بار اور پاکستان کی تاریخ کے مطابق ہمیشہ کی طرح مدت وزارت اعظمیٰ ”نامکمل“ ہی رہی۔ کچھ نون مسلم لیگ نون کو اچھے لگتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اچھے نہیں لگتے۔ جیسا کہ نواز تو اچھا لگتا ہے، نثار نہیں، چاہے وہ اپنی ہی جماعت کا ہو یا عدالت اعظمیٰ کا۔ ترکی کا اردوان ساتھ دیتا ہے مگر سعودیہ کا سلمان نہیں۔ مجھے امید ہے پانامہ والا نون بھی نا پسند فہرست میں ہی ہوگا۔
شریف خاندان پر نیب میں چلنے والے ریفرنسز کے سبب یہ نیب اور عدالت اعظمیٰ میں بار بار کیسز پر عدلیہ سے”نالاں“ ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزر رہا جب یہ ایک دوسرے پر طنز کے نشتر نہ چلا رہے ہوں، گویا محسوس ہوتا ہے دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوں
؏ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
بات ہو رہی تھی پسند اور نا پسند نون کی۔ پانامہ کیس کا فیصلہ سنانے والے بینچ میں تین جج صاحبان ایسے تھے جن کے نام میں نون تھا، یہ بھی اچھے نہیں لگتے۔ احمد نورانی کی رپورٹ کے مطابق جو واٹس ایپ جے آئی ٹی بنی تھی اس میں شامل تمام محکموں کے ناموں میں بھی نون ہے، اور جو افراد اس کا حصہ تھے ان میں بھی تین کے ناموں (صرف ناموں) میں نون پایا گیا ہے؛ یہ بھی ناپسند نون ہیں۔ ہاں البتہ احمد نورانی کے نام میں بھی” نون“ ہے جو پسند ہوگا۔
”ڈان لیکس“ ہوں یا ” نہال لیکس“ دونوں ہی دلوں سے نکلے ہوئے نون ہیں۔ ممکنہ طور پر میاں صاحب ایک بار پھر نااہلی کی مدت کے تعین کے مقدمہ میں نااہل قرار دئیے جائیں گے۔ اور تو اور، ان کے ”کیوں نکالا“ میں بھی نون ہے۔ توہین کے نوٹس پر نوٹس آ رہے ہیں، یہ بھی ناپسند نون ہی ہیں۔ اس قدر نون نون ہے کہ بعض لوگ مسلم لیگ نون میں نون کو”ناراض“ یا ” نااہل“ کی نسبت گرداننے لگے ہیں۔
نواز شریف نے کئی غلطیاں کی ہیں۔ کئی بار مصلحت کی کشتی پر سوار ہوکر مدت پوری کرنے کی خواہش کی اور کوشش بھی، مگر انہیں یہ خیال نہیں رہا ہمارے ملک میں مصلحت ایک دلدل ہے۔ آپ اس میں اُترتے تو اپنی مرضی سے ہیں مگر دھنستے ”اُن“ کی مرضی سے چلے جاتے ہیں۔ لا حولا ولا قوت الاباللہ، اب یہ اُن میں بھی نون آگیا۔ مجھے اس با ت کا یقین ہے یہ نون انہیں بحیثیت حزب اختلاف پسند اور بحیثیت حزب اقتدار ناپسند ہی رہا ہوگا۔
میاں صاحب خود کو ملک اور جماعت دونوں کے لیے ”ناگزیر“ سمجھتے ہیں۔ ایسا سوچنا درست نہیں مگر سوچ پر پابندی نہیں لگ سکتی۔ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے، قائد اعظم کی مسلم لیگ نہیں رہی، مگر قائد اعظم آج بھی ہیں۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی نہیں رہی مگر بھٹو ہے، آپ کو ایوان سیاست سے بظاہر تو نکال دیا گیا ہے مگر اب بھی آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ایٹمی دھماکے، موٹرویز، سی پیک اور دیگر حوالوں سے آپ کو یاد ضرور رکھا جائے گا۔ اب کچھ سیاسی و جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے بھی کرتے جائیے۔ ایسے کام جو ایوان اقتدار سے بلند ہوں، جو سمجھوتوں کے سامنے سر بلند رہیں۔ آپ اپنی جماعت کو حقیقی و مضبوط جمہوری جماعت بنائیں، جہاں اختلاف رائے اصولی ہو، ٹھوس اختلافی آراء کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ اگر آپ 18 برس تک اپنے مخالف جماعت میں رہنے والے مشاہد حسین کی بات سن سکتے ہیں تو آپ کو انہی 18 برسوں میں وفاداری تبدیل نہ کرنے والے چوہدری نثار کی بات بھی سننی چاہیے۔ ماننا نہ ماننا آپ کا حق۔ میڈیا اور دیگر حلقوں کی جانب سے بھی اس طرح کی باتوں کو صحت مندانہ قرار دینا چاہیے، ان سے جماعتوں کومضبوط کرنا چاہیے، نہ کہ جماعتوں میں نا اتفاقی کا تاثر دینا چاہیے۔
نواز شریف صاحب کو یہ بھی سوچنا چاہیے، جس وقت وہ عدلیہ بحالی تحریک چلا رہے تھے آج پتا چلا وہ تحریک بحالی عدلیہ نہیں تھی بلکہ فرد واحد کو بُت بنانے کی تحریک تھی، بُت بھی وہ جو خود کو خُدا سمجھنے لگے۔ اب بحالی عدل اور حرمت ووٹ کی تحاریک چلا رہے ہیں، کاش یہ تحاریک نوے کی دہائی میں شروع کی ہوتیں تو آج یوں دہائیاں نہ دینی پڑتیں۔ خیر دیر آید درست آید۔ ان تحاریک میں انہیں، جمہوریت اور پاکستان کو کتنی کامیابی ملتی ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
پاکستانی عوام دھرنوں، دھکوں، مسلسل سیاسی رسہ کشی، ہیجانی کیفیت سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ استحکام چاہتے ہیں، بڑھتی ضروریات کے سبب وسائل میں اضافہ چاہتے ہیں۔ یہ ”کیوں نکالا“ کو زیادہ دیر یاد نہیں رکھیں گے، انہیں اپنے مسائل کا حل چاہیے، انہیں امن کا ”نون“ چاہیے جنگ کا نہیں۔ آپ کو وزارت اعظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد بھی ملک نہیں رکُا، یہ آپ نے بھی اچھا کیا کہ اسے رکُنے نہیں دیا۔ ملک کو چلتے رہنا ہے، ملک ہے تو ہم ہیں، ورنہ نہیں ہیں۔ ہم لوگوں نے آتے جاتے رہنا ہے۔
70 سالوں میں کم از کم ہم آج اس مقام پر پہنچ چکے جہاں کسی حد تک ہم اپنی آواز اٹھا سکتے ہیں، اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے ہمارے پاس کئی ذرائع موجود ہیں۔ لوگ حالات کو پہلے سے کئی گنا زیادہ بہتر طریقے سے بھانپنے کے قابل ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ وہ دن بھی دور نہیں جب ہم مکمل باشعور، خود مختار و آزاد ہو جائیں گے۔ ملک کے اندرونی و بیرونی چیلنجز کم ہونگے، جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ ملک کے وزرائے اعظم بے خوف و خطر اپنی مدت پوری کریں گے۔ بجلی کا بحران ہوگا نہ تعلیم کا فقدان۔ جج نہیں بولیں گے بلکہ فیصلہ اور قانون بولے گا۔ آئین بالادست ہوگا، دشمن تہی دست۔ انشاءاللہ ایسا ہوگا پاکستان
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو