تحریر : ایم پی خان
قوموں کی ترقی کاراز تعلیم میں پوشید ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ پر نظر ڈالنی سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا میں ہمیشہ وہی قومی سرخرورہی ہیں ، جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع زیادہ سیزیادہ اورآسانی سے میسرہوتے ہیں۔ انکی زندگی کاہرگوشہ خوشحالی اوررشن خیالی سے منورہوتاہے۔وہاں بے امنی ، قتل وغارت ، چوری، ڈکیتی ،چھینا جھپٹی،دھوکہ دہی ،لوٹ مار، بدعنوانی اور دھاندلی جیسے مسائل کانام ونشان نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک ان تمام مسائل کے لپیٹ میں بری طرح گھیراہواہے۔وجوہات ارباب اختیار، سیاسی قائدین، حکماء ملت اورمختلف دانشورمختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن حقیقی وجہ صرف اورصرف تعلیم کی کمی ہیاورتعلیم کی کمی کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی بات ہماری تعلیمی پالیسی کی ہے۔
پاکستان کا معرض وجودمیں آنے سے لیکر تاحال حکومت نے کئی تعلیمی پالیسیاں نافذکیں ہیں اورملک میں شرح خواندگی بڑھانے کے ساتھ ساتھ معیارتعلیم بلند کرنے کے لئے بلند وبانگ دعوے کئے ہیں لیکن کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ حکومتی ترجیحات کبھی نہ کبھی تورنگ لائے گی اورشرح خواندگی میں دھیرے دھیرے اضافہ ہوہی جائے گالیکن میعارتعلیم میں کوئی خاص بہتری کے اثارنظرنہیں آتے۔کیونکہ پاکستان میں زندگی کاہرشعبہ طبقاقی کشمکش کاشکارہے اوریہی وجہ ہے کہ نظام تعلیم بھی طبقاتی نشیب وفراز کی قید سے آزادنہیں ہوسکا۔عام آدمی کو تعلیم کے حصول کے وہ مواقع میسرنہیں ہوتے جوایک سرمایہ دارکو ہوتے ہیں۔غریبوں کے بچے سرکاری مدارس میں پڑھتے ہیں ، جہاں طلباء کی تعداد کے مطابق استاتذہ موجودنہیں ہوتے اورجوچندایک ہوتے ہیں تووہ اپنے فرائض کی ادائیگی احسن طریقے سے نہیں کرتے۔
نتیجتاً امتحانات میں اکثرنجی تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہترہوتی ہیاورلوگوں کارجحان نجی تعلیمی اداروں کی طرف روزبروز بڑھتاجا رہاہے، حتیٰ کہ سرکاری اداروں کے اساتذہ بھی اپنے بچوں کو پبلک سکول اورکالجوں میں بھیجتے ہیں۔ان نجی تعلیمی اداروں میں کچھ ادارے تواپنامعیاربلندرکھنے کے لئے خوب کوشش کرتے ہیں اوردرس وتدریس کے عمل میں کافی اخلاص کے ساتھ قوم وملک کی خدمت کرتے ہیں لیکن کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جوغیرمعیاری نصاب کاانتخاب کرتے ہیں۔پاکستان میں بدقسمتی سے نصاب بنانے والی کمپنیو ں کی بھرمارہے، جن میں اکثرصرف مالی منفعت کوسامنے رکھتے ہوئے ایسی کتب پبلش کرتے ہیں، جن پر وہ قیمت نہیں لگاتے اورپھرسکول والے اپنی مرضی کے قیمت وصول کرتے ہیں اوریوں سکول والوں کے لئے نیاسال والدین سے رقم بٹورنے کابہترین موقع ہوتاہے۔
ایک اوسط درجے کے پرائیویٹ سکول میں پرائمری لیول کے کسی بچے کاداخلہ اورچندچھوٹی چھوٹی کتب اورکاپیاں کئی ہزارروپے میں ملتی ہیں ، جوصاحب استطاعت لوگ توخوشی سے اداکرتے ہیں لیکن غریبوں کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔سکول کے بعدحصول تعلیم کے عمل میں مشکلات بڑھناشروع ہوجاتی ہیں۔کالجوں اوریونیورسٹیوں میں داخلہ لینابہت مشکل ، وقت طلب اورکبھی کبھی جان لیوابھی ثابت ہوتاہے۔بورڈزاوریونیورسٹیوں کی فیس اداکرناعام آدمی کے بس کاکام نہیں اورپھراکثربورڈزاوریونیورسٹیاں زیادہ سے زیادہ امیدواروں کے پرچے فیل کرکیانہیں دوبارہ داخلہ لینے پرمجبورکردیتے ہیں کیونکہ انکا کاروبارچلنے کے لئے اس سے زیادہ مفید اورکوئی طریقہ نہیں ہے۔جبکہ فیل کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایک طالب علم جب پیپر میں کچھ لکھتا ہے تو اس کو اتنا اندازہ تو ہو جاتا ہے کہ اس نے ایک سوال کا جواب سو فیصد اگرچہ نہیں بھی لکھا تو کم از کم اتنا ضرور لکھا ہے کہ بہت کٹوتی کے بعد بھی اسکے چالیس فیصد نمبر بن ہی جانے ہیں۔
لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ چالیس تو درکنار، اسکو وہ پیپر پاس کرنے کے لیے مزید دس، بارہ نمبروں کی ضرورت پڑگئی ہے۔ آکر یہ پیپر چیک کرنے والے یا بورڈ، یونیورسٹیز والے پیپر میں سوال کے جواب کے مطابق نمبر کیوں نہیں دیتے۔ اس طرح اسنادکے حصول کاعمل بھی کافی مشکل ہوتاہے اوراسکے لئے بھاری فیس اداکرناہوتی ہے۔ایسے حالا ت میں ایک غریب شخص بمشکل اپنے بچوں کو میٹرک تک یاسیکنڈری تک پڑھانے کی استطاعت رکھتاہے، اور اتنی تعلیم انکی زندگی بدلنے کاذریعہ نہیں بن سکتی۔یوں یہ سلسلہ نسل درنسل ناکامی کاباعث بنتاجارہاہے۔جبکہ انکے مقابلے میں مالدارلوگ اپنے بچوں کو ملک کے بڑے بڑے کالجز اوریونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں۔ وہ کتنے ہی نااہل اورنالائق کیوں نہ ہوں، کسی نہ کسی طرح ڈگری حاصل کرہی لیتے ہیں پھرنوکری حاصل کرنے کی دوڑمیں بھی اکثرمالداروں کے بچے ہی آگے ہوتے ہیں۔یہ بات روشن کی طرح عیاں ہے کہ اکثربا صلاحیت اورمحنتی افرادغریب طبقہ میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان لوگوں کو آگے آنے کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ تعلیم کے دروازے سب کے لئے کھول دئے جائیں اورحصول تعلیم کی راہ میں حائل مشکلات ختم کردئے جائیں۔
غریب لوگوں کے لئے کالج، یونیورسٹی اوربورڈز کی ہرقسم فیس معاف کردی جائے۔یا کوئی اس طرح کا طریقہ کار وضح کیا جائے کہ وہ اپنی تعلیم بھی آسانی سے جاری رکھ سکیں اور اپنی فیس بھی اس طرح سے ادا کر سکیں کہ نہ تو والدین پر بوجھ بنیں اور نہ ہی کسی بھی لمحہ انکی تعلیم میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔ اسی طرح ڈگری یاسرٹیفیکٹ کے حصول کاعمل بھی جہاں تک ممکن ہو، آسان بنادیاجائے، تاکہ گریجویشن ،پوسٹ گریجویشن اوراعلیٰ تعلیم کاحصول غریب عوام کی دسترس سے باہرنہ ہو۔انہیں لوگوں کوآگے آنے کاموقع ملے گا۔ملک میں شرح خواندگی بڑھے گی، تعلیم کامعیاربلندہوگا، جہالت ختم ہوگی، روزگارکے مواقع ہاتھ آئیں گے۔ جب اہل اورباصلاحیت لوگ ملک کی باگ ڈورسنبھالیں گے توملک کانظام ٹھیک ہوگا، بدعنوانی ختم ہوگی، ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ ہرکسی کو انصاف ملے گااورچارسو امن وامان ہوگا۔
تحریر : ایم پی خان