تحریر : ایم سرور صدیقی
لگتاہے حکومت اور نیب دونوں مشکل میں ہے۔۔دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔۔ دونوں کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ نیب کے سابقہ چیئرمین فصیح بخاری کو عدالت ِ عظمیٰ کے حکم پر فارغ کیا گیا تو حکومت نے اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے بعد چوہدری قمر الزماں کو نیا چیئر مین مقررکیا حکومت اور اپوزیشن دونوں” خوش ” تھے اپنا بندہ آگیاہے اب دوسروںکا احتساب ہوگا لیکن آج کیا حکومت کیا اپوزیشن والے دونوں باں باں کرتے پھررہے ہیں اسی صورت ِ حال میں میاں نوازشریف اور خورشید شاہ کو یقینا یہ شعرتو یاد آتاہی ہوگا
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت کدے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق نیب میں150بااثر شخصیات کی فائلیں ری اوپن ہورہی ہیں جن میں پنجاب میں50سے زیادہ لیگی رہنما بھی شامل ہیںا ن کے خلاف نیب NI ACTIONہوگئی ہے ان میں سابقہ وزیر ِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر ِ نامدار آصف علی زرداری ( جن کا نام ہی کافی ہے )،گورنرپنجاب رفیق رجوانہ، تین بار وزیر ِ اعظم بننے کا اعزازحاصل والے میاںنوازشریف، سید موسیٰ پاک کے گدی نشین سید یوسف رضا گیلانی،پنجاب کی تاریخ کے سب سے زیادہ منتخب ہونے والے و زیر ِ اعلیٰ میاں شہبازشریف، ان کے ہونہار سپوت میاں حمزہ شہباز،رینٹل پاور کے بے تاج بادشاہ راجہ پرویز اشرف،سردار آصف نکئی،دڈیو سکینڈل فیم رانا مشہوداحمدخان،صوبائی وزیر ِ قانون رانا ثناء اللہ،سابقہ وزیر ِ پٹرولیم امان اللہ خان جدون، بے نظیر انکم سپورٹ کی سابقہ چیئر پرسن فررانہ راجہ،سابقہ ڈی سی اسلام آباد کامران لاشاری،راشدہ یعقوب، آئی جی جیل خانہ جات،عبداللہ یوسف، ایم زیڈ اقبال،طارق خان سمیت سینکڑوں بااثر افراد شامل ہیں جن کے خلاف اختیارات سے تجاوزکرنے،سرکاری زمینوںپر قبضہ،سرکاری فنڈز خوردبرد کرنے کے الزامات ہیں نیب نے ان تمام شخصیات کے خلاف گھیرا تنگ کرتے ہوئے ان کے نام ECL میں ڈالنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔۔۔
ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے درجنوں مقدمات قائم کئے گئے جس کی پاداش میں سابقہ صدر 8 سال قید بھی رہے مقدمات کی پیروی کے لئے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کردئیے گئے لیکن ٹائیں ٹائیں فش کے مصداق ان پر ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکاویسے بھی پاکستان میں کسی بااثر شخصیت کو آج تک کسی کیس میں بھی سزانہیں ہوئی تمام مقدمات ریت کی دیوار ثابت ہوئے جس پر کرپشن کا مقدمہ بنا وہ اپنے حامیوں کے جھرمٹ میں حلق پھاڑ نعروںکی گونج میں عدالت میں اس شان سے وکٹری کا نشان بناتاہوا پیش ہوتے ہیں جیسے انہوں نے کشمیر فتح کرلیا ہو۔ اگر گوڈے گوڈے کرپشن میںملوث ملزمان کا یہ اندازہے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتاہے ہم اخلاقی اقدارکی کس منزل پر ہیں اب خدا ہی بہتر جانتاہے یہ بلندی ہے یا پستی۔۔۔ اگر یہ بلندی ہے تو پھر پستی کیسی ہوگی؟۔۔۔گذشتہ سال کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کرنے کے لئے موجودہ حکومت نے جواقدامات کئے اس کی روشنی میں ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری ایک دھماکہ ثابت ہوئی اسے آصف علی زرداری کا فرنٹ مین، دہشت گردوںکا سہولت کار اور 250ارب کی کرپشن قرار دیاگیا اور ایسی ایسی کہانیاں منظر ِعام پر آئیں کہ سندھ حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے پیپلز پارٹی کے رہنمائوںنے شور مچا دیا کہ نیب کو صرف پیپلز پارٹی ہی نظر آتی ہے ہمیشہ جس کااحتساب کیا نیب پنجاب کارخ کیوں نہیں کرتی۔۔۔
اور پھر قومی احتساب بیورو پنجاب میںNI ACTIONہوئی تو وزیر ِ اعظم نے کہا نیب معصوم لوگوںکا احتساب کررہی ہے جس سے سرمایہ کاری پر برااثرپڑے گا نیب پر نظررکھنے کیلئے کمیشن قائم کیا جائے گاوزیر ِاعظم کا لہجہ انتہائی جارحانہ تھا پھر و زیر ِ اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور کئی وزیر و مشیروںنے نیب کو آڑے ہاتھوں لیا کچھ نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ احتساب کرنے والوںکا بھی احتساب ہونا چاہیے۔۔ کرپشن کا ناسور اس حد تک ہمارے اداروں،محکموں اور بااثر شخصیات کی رگ رگ میں بس چکاہے کہ صرف ایک دن کے اخبار میں کئی خبریں چھپی ہوتی ہیں اب توکرپٹ مافیا نے لوٹ مارکے ٹیکنیکل طریقے ایجاد کرلئے ہیں حیرت انگیر کہانیاںظاہرکرتی ہیں کرپشن ہزاروں،لاکھوں کی کرپشن کرپشن ہی نہیں سمجھی جاتی اب بات اس سے کہیں آگے جا پہنچی ہے۔۔۔ کروڑوں سے اربوں تک کی کرپشن کی جارہی ہے اور کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ آج تک کسی ایک بھی کرپٹ کو سزا نہیں ہوئی ۔۔ پٹرولیم کے ایک سابقہ عہدارکی85ارب کی کرپشن بے نقاب ہوئی تو وہ ملک سے فرارہوگیا انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے واپس لایا گیا لیکن لوٹی ہوئی دولت پھر بھی واپس نہ ملی اب وہ ”صاحب ”جانے کہاں ہیں؟ ان کے خلاف کرپشن کے کیس کا کیا بنا؟۔۔۔ کوئی نہیں جانتا۔۔۔
اڈیٹر جنرل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دانش سکولوں میں ایک ارب 25 کروڑکی ہیرا پھیری کی گئی ہے جس پر وزیر ِ تعلیم پنجاب رانا مشہود احمد خان نے وہی گھسا پٹا۔۔ ڈھیلا ڈھالا بیان داغاہے ذمہ داروںکے خلاف کارروائی ہوگی رقم بھی واپس لی جائے گی۔۔۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا تازہ بیان ہے پاکستان میں روزانہ12ارب ،سالانہ 4320 ارب کی کرپشن ہورہی ہے جس کے باعث ملک70ارب ڈالرکا مقروض ہے پیلی ٹیکسی،روزگار سکیم،پڑھا لکھا پنجاب، تیل، گیس اور معدنی ذخائرمنصوبوں میں100-100ارب ڈکارلئے گئے دھرنوں کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا تھا میرے پاس ناقابل ِ تردید ثبوت ہیں کہ لانچیں بھر بھر کر نوٹ دبئی سمگل کئے جارہے ہیں۔۔۔ ایک وفاقی وزیر نے الزام لگایا ہے کہ صرف خیبرپی کے میں8ارب سالانہ کی گیس چوری کی جارہی ہے ۔ نہ جانے کتنی ماڈل گرلز منی سمگلنگ میں ملوث ہیں ان کی آنیاں جانیاں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ غیرملکی آئل کمپنی” مول”پاکستان میں143کی آئل چوری ملوث ہے اس واردات میں” اپنے ”بھی شامل ہیں اسی لئے ملک کنگال ہوتا جارہاہے۔
مال بنانے کے لئے پہلے قومی اداروںکو غیرمنافع بخش قراردے کر اونے پونے بیچ دیا جاتاہے شنیدہے کہ خریدنے والے بھی بیچنے والوںکے فرنٹ مین ہوتے ہیں۔۔ کرپشن نے پاکستان سٹیل ملز،PIA،نندی پور پراجیکٹ،پاکستان ریلویز جیسے بڑے ا دارے تباہ کرکے رکھ دئیے لیکن کسی کو ذمہ دارقرار دیا گیا نہ کسی کا احتساب ہوا حالانکہ ہر کرپٹ شخص پاکستان کا دشمن ہے بجلی چور، گیس چور ،ٹیکس چور۔ اس پاک دھرتی کے مجرم ہیںقبضہ مافیا،دونمبرکام کرنے والا ہرفرد عوام کی خوشیوںکا قاتل ہے۔۔ مہنگائی کا سبب ہے ایسے ہر ہر شخص کونیب کے شکنجے میں جکڑ دیا جائے یہی حالات کا تقاضاہے اورپاکستان کی ترقی کا نسخہ ٔ کیمیا بھی ۔۔پاکستان کو بچاناہے تو کرپٹ مافیاکامنطقی انجام ناگزیرہے اس کے لئے نیب کو اپنی دمہ داریاں پورا کرناہوں گی ہرکرپٹ کااحتساب اس ادارے کا نصب العین ہوگا تو ملکی معیشت کا خون چوسنے والی جونکوںسے چھٹکارا ممکن ہے حکومت کو بھی عقل کے ناخن لینا ہوں گے نیب کی حیثیت ایک آزاد، خود مختار اور غیرجانبدار کے طورپر بحال رہنی چاہیے ایک نیا احتساب کمیشن بناکر اسے متنازعہ نہ کیا جائے۔۔۔لگتاہے حکومت اور نیب دونوں مشکل میں ہے۔۔دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔۔ دونوں کا امتحان شروع ہوگیاہے اس امتحان میں سرخرو ہونے کیلئے نیب کو NI ACTION ہونا ہی چاہیے یہ اس کی کریڈبیلٹی کا سوال ہے۔
تحریر : ایم سرور صدیقی