تحریر : ایم سرور صدیقی
کہتے ہیں جب دنیا میں کچھ نہ تھا پانی تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی پانی ہی ہوگا پانی زندگی کی علامت ہے اورقدرت کا بیش قیمت تحفہ بھی جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کرہ ٔ ارض پر ایک حصہ خشکی اور تین حصے پانی ہے اور خشکی کے نیچے بھی پانی ۔۔سوچنے کی بات ہے اللہ نے پانی کو کتنی فضیلت عطا کردی آب ِ زم زم کو بھی پانی بنا دیا اس کے باوجود پاکستانی قوم کی قسمت کا کیا کیجئے حکومتی اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی ملک کی بیشتر آبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں۔ یہ کتنے مزے کی بات ہے کہ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس کو جس سانچے ڈالو ڈھل جاتا ہے
جس رنگ میںچاہو رنگ لو۔جو زورآور چاہے دوسروں کا پانی بند کردے پانی کی طرف سے کوئی مزاحمت کوئی احتجاج نہیں۔۔۔ امیرالمومنین حضرت علی سے کسی نے سوال کیا جناب پانی کا ذائقہ کیسا ہوتاہے؟ امیرالمومنین نے بلا تامل فرمایا زندگی جیسا۔۔۔ جب سے دانش بھرا یہ جواب پڑھاہے حیرت میں گم ہوں امیرالمومنین حضرت علی نے صدیوں پہلے پاکستانی قوم کی زندگی بارے کیسی تلخ حقیقت آشکار کردی تھی۔۔ یہاں عام آدمی کو جوپانی پینے کیلئے میسر ہے عام شکایات ہیں وہ کڑوا، گندہ،آلودہ ہوتاہے المختصروہ پینے کے قابل بھی نہیں ہوتا شاید اسی لئے زیادہ لوگوں کا لہجہ کڑوا، کپڑے گندے اور ذہن آلودہ رہتے ہیں یعنی پانی کے ذائقے والی زندگی ۔۔ایک اور بات تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آبادکے مضافاتی علاقے، چولستان اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے
بعض مقامات پر خواتین اور بچے کئی کئی میل دور پیدلچل کر اپنے گھروں میں پینے کیلئے پانی لاتے ہیں تھر اورچولستان میں خشک سالی سے ہر سال سینکڑوں افراد اور لاکھوں جانوربلک بلک اور تڑپ تڑپ کر بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں میڈیا اور حکومتی حلقوںمیں وقتی ہلچل پیدا ہوتی ہے دو چارفوٹو سیشن اور معاملہ ختم۔پاکستان کے سینکڑوں ایسے دور دراز کے علاقے بھی ہیں جہاں جانور اور انسان ایک ہی چھپڑ(جوہڑ)سے پانی پینے پر مجبور ہیں لیکن مستقل بنیادوںپر کسی حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے زیادہ ترحکمرانوں کی سوچ شہروںکی ترقی تک محدود ہے شاید ان کا مطمع ٔ نظربلا امیتازیکساں وسائل سب کیلئے نہیں ہے۔پانی جیسی بنیادی سہولت کی دستیابی ہر شہری کا پہلا حق ہے لیکن اس پر بھی سیاست ہوتی ہے
کبھی اپنے مخالفین کا ناقطہ بند کرنے کے لئے اور کبھی اپنی جے جے کار کیلئے۔۔۔اسی طرح فصلوں کیلئے نہری پانی کے حصول کیلئے محکمہ انہار کے اہلکاروں سے ساز باز، موگھے توڑ کر پانی چوری کرنا کسی کو اس کے حصہ کے پانی سے محروم کردینا عام سی بات ہے بھارت پڑوسی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کو اس کے حصے کے پانی سے محروم کرنے کی جو مذموم کوششیں اور سازشیں کررہاہے وہ پوری دنیا پر عیاں ہیں کروڑوں انسانوںکی لعن طعن پر بھی وہ ذرا شرمندہ نہیں ہوتا دریائوں پر ڈیم پہ ڈیم بناکر پاکستان کا جو آبی استحصال کیا جارہا ہے عالمی برادری کو آنکھیں کھول کر اس کی نہ صرف مذمت کرنا چاہیے بلکہ اس کے پائیدار حل کیلئے اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے
جو حالات جارہے ہیں دنیا میں جس تیزی سے پانی کی کمی واقع ہوتی جا رہی ہے کوئی بعید نہیں دو ممالک کے درمیان مستقبل کی جنگیں پانی کے حصول کیلئے لڑی جائیں۔ پاکستان پانی کی کمی والے ٹاپ ففٹی ممالک میں تیزی سے ابھررہاہے لیکن کسی کو حالات کی سنگینی کااحساس تک نہیں جس ملک کا آدھے سے زیادہ رقبہ پانی سے محروم،بنجر اور ویران ہو وہاں کے حکمرانوںکی تو نیندیں حرام ہو جانی چاہییں مگر خواب خرگوش مزے ۔۔سے محروم ہونے کو گناہ سمجھ لیا گیاہے ایک وقت آئے گا جب بے رحم تاریخ اپنافیصلہ تحریر کرے گی تو حکمران ، عوام، سیاستدان وڈیرے، جاگیر دار سب کے سب قومی مجرم گردانے جائیں گے
کتنا ظلم روزانہ ہزاروں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے جس سے پانی سے محروم، بنجر اور ویران زمینیں سونا اگل سکتی ہیں لہلہاتی کھیتیاں خوشحالی لا سکتی ہیں اس ملک سے بھوک اور غربت ختم کی جا سکتی ہے یہی پانی جمع کر ڈیم بنائے جائیں تو وطن ِ عزیز سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ مستقل بنیادوںپرہو سکتاہے لیکن ہم نے ہر قیمت پر قوم پرستی کے نام پر سیاست سیاست کا کھیل جاری رکھناہے تو لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کا حق کس نے دیاہے؟
اسی طرح ملک بھر میں پینے کا پانی بھی ایک مسئلہ بناہواہے آلودہ،یرقان زدہ، گندہ پانی جس سے پیٹ، جگر اورمعدے کی بیماری میں مسلسل اضافہ ہورہاہے محکمہ صحت، پبلک ہیلتھ اور حکومتی اداروں کی کارکردگی لمحہ ٔ فکریہ ہے خوفناک بات یہ ہے کہ تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آباد،ایوبیہ کے مضافاتی علاقے،چولستان اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے لاہور،کراچی،حیدرآباد ،فیصل آباد اورپشاورکی جن آبادیوںمیں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے وہاں واٹر ٹینکروں سے TMA لوگوںکو فراہم کرتا رہتا ہے
ایک اور مسئلہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں پیر صابر شاہ کی وزارت اعلیٰ کے دوران این اے 18 میں 98 لاکھ کی خظیررقم سے واٹر سپلائی کا ایک منصوبہ تکمیل پذیرہوا لیکن ایوبیہ شانگلہ گلی سے ملحقہ 1318 گھرانوں پر مشتمل کلاسسر شرقی پورہ گائوںآج بھی پینے کے پانی سے محروم ہے جس سے یہ پورا علاقہ کربلا بن کررہ گیاہے شدید گرمی ہو یا سردی یہاں کے لوگ پانی کی بوند بوند پینے کو ترس رہے ہیں جبکہ ایبٹ آباد اور دیگر شہری علاقوں میں اسی واٹر سپلائی کے منصوبے کا کمرشل استعمال کیا جاری ہے تعمیرہونے والے پلازوں اور بلڈنگوں کو تو پانی کی وافر مقدار مل رہی ہے لیکن لوگوں کے منہ پیاس سے سوکھ رہے ہیں
امیدہے کہ وزیر ِ اعلیٰ خیبر پختون خواہ 1318 گھرانوں پر مشتمل کلاسسرشرقی پورہ گائوں کو پینے کے پانی کا بنیادی مسئلہ ترجیحی بنیادوںپر حل کروائیں گے اور اللہ کی اس بیش قدر نعمت مخلوق ِ خدا پر آسان کرنے سے حکومت کیلئے بھی آسانیاں پیدا ہونا کوئی مشکل کام نہیں۔۔۔ایک خبریہ بھی ہے کہ پاکستان میں صاف پانی کے نام پر درجنوں کمپنیاں اور ان کے ہوس پرست مالکان عام پانی پیک کرکے منرل واٹر کے نام پر ماہانہ اربوں روپے کما رہے ہیں
اس کا بھی کوئی اپائے ہونا چاہیے حکومت ”صاف شفاف پانی ہر شہری کیلئے ” جیسے منصوبے شروع کرے۔شیریں ،صاف شفاف پانی دسترس میں ہوگا تو انشاء اللہ زندگی کا ذائقہ بھی بدل جائے گا۔پانی جو زندگی ہے ۔۔زندگی کی علامت ہے اوربھرپور زندگی جینے کا حق ہر پاکستانی کو ہے۔ہمارے وزیر ِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو یہ عجیب نہیں لگتاکہ حکومتی اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی ملک کی بیشترآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں جو سٹیٹ زندگی کی بنیادی سہولت فراہم نہیں کرسکتی اس کے حکمرانوںکو تنہائی میں سوچنا چاہیے ۔۔وہ کیا کررہے ہیں؟ ۔۔ان کی کارکردگی کیسی ہے؟ اورعوام ان کے بارے میں کیاسوچتی ہے؟
تحریر : ایم سرور صدیقی