معلوم نہیں کہ کتاب کا نام سراج الحق کے موجودہ قومی کردار کو دیکھ کر محبتوں کا سفیرتجویز کیا گیا ہے یا اُن کے اُس کردار کو سامنے رکھ کر رکھا گیا جو کردار انہوں نے اپنے ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے وقت ادا کیا تھا جس کا تذکرہ کتاب کے پہلے کالم نگار جناب عطا محمد تبسم نے کیا ہے۔ سراج الحق اس وقت پاکستان کی سیاست میں مرکزی مقام حاصل کر چکے ہیں۔ جب عمران خان لاہور سے اسلام آباد کے دھرنے کے لیے عازم سفر ہوئے تھے تو حکومت کو انہوں نے ہی مشورہ دیا تھا کہ سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ اس سے قبل حکومت سانحہ ماڈل میں غلطی کر چکی تھی جس کا ابھی تک خمیازہ بھگت رہی ہے۔اس طرح اسلام آبادمیں بھی دھرنوںپر سختی کرنے سے حکومت کو انہوں نے ہی روکے رکھا اور بڑھنے والوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا پھر جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے سب کچھ قوم کے سامنے ہے۔
گو کہ عمران خان نے حسب عادت ا ن پر بھی ڈبل وکٹ پر کھیلنے کا الزام بھی لگایا مگر محبتوں کے سفیر نے اسے برداشت کیا اور عمران خان خود ہی ان سے ملنے اسلام آباد میاں اسلم کے گھر گئے اور غلط فہمی دور ہوئی۔ان کے شفاف کردار کی وجہ سے ملک کی سیاسی پارٹیوں نے ان کو سیاسی جرگے کا قائد بنایا جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی کشمکش کی برف پگلنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جب اسلامی جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے اس وقت ملک میں طلبہ تنظیمیں ایک دوسرے دست وگریبان تھیں پورے ملک میں جنگ کا سماں تھا۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ طلبہ کی لڑائیوں میں جمعیت نے کبھی بھی پہل نہیں کی ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہی۔ اکثرمار بھی اسلامی جمعیت کے لڑکوںکو پڑتی تھی اور مقدمے بھی ان پر بنتے تھے کالج اور یونیورسٹی انتظامیہ بھی اکثر ڈر کر اور کبھی ثقافت کے نام پر ناچ گانوں میںشامل ہونے کی وجہ سے جمعیت مخالف تنظیموں سے صرف نظر کرتیں تھیں۔ بلا آخرجمعیت نے بھی تنگ آ کر مخالف تنظیموں کے خلاف کاونٹر اٹیک کے طور پر مقدمے قائم کرنا شروع کر دیے جس میںسچ اور جھوٹ کی آمیزش ہوتی تھی۔ اس پر محبتوں کے سفیر نے شوریٰ کے بعدکراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کل پاکستان ارکان اجتماع بلایا اور جمعیت کے شانہ شان کام کرنے کی سیر حاصل ڈسکس کی اور کہا ہم پہل کر کے تمام ایسی ایف آئی آر واپس لیں گے۔
کچھ ارکان کہنے لگے کہ ہمارے ساتھیوں سے ظلم کیا گیا فلاں کی ٹانگیں توڑی گئی اور فلاں کو جان سے مار دیا گیا۔ مگر محبتوں کے سفیر نے مسلسل پانچ ماہ میں ارکان کو زور دار طریقے سے قائل کیا کہ ہم ایک نظریاتی تنظیم ہیں ہمارا کا م معا ف کر دینا ہے کچھ سمجھ گئے کچھ کے خلاف ڈسپنلری کاروائی کی گئی۔ اور مخالفوں کے خلاف جمعیت کی طرف سے دائر کی گئی سب ایف آئی آرواپس لے لی گئیں۔ اس سے ملک میں طلبہ تنظیموں کی لڑائیاں ختم ہوئی اور جمعیت کا فوکس دعوت پر ہو گیا۔ کتاب میں یہ تذکرہ بھی موجود ہے کہ مختصر وقت میں سراج الحق کو پاکستان میں شہرت ملی ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ پہلی مرتبہ زیرین سندھ کے دورے کے دوران جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی ان کا والہانہ استقبا ل کیا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کسی بھی صورت سندھ کی تقسیم برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس دورے میں پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نما مخدوم امین فہیم،قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز پلیجو،،سینیٹر مولا بخش چانڈیو،میر رقیق تالپور اور دیگر سیاسی راہنمائوں سے ملاقات میں ملکی اور بین القوامی معا ملات پر گفتگو ہوئی۔ کتاب میں لکھا ہے کہ سراج الحق ایک ایسی سیاسی جماعت کے پانچویں امیر بنے جو رنگ، نسل ،زبان اور فرقہ پرستی کی تمام تر تعصّبات سے بالا تر ہے۔ ملک میں ایک بھی ایسی جماعت نہیں جس پر خاندانوں کا قبضہ نہ ہو۔اب عوام کے اندر جمہوریت کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے توقع کی جا سکتی ہے کہ سراج الحق کے تحریک تکمیل پاکستان، اسلامی پاکستان، خوشحال پاکستان کی بھر پور اہمیت دیں گے اور جماعت اسلامی میں شریک ہوکر عظیم سوچ کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو عہدوں کو ذمہ داری کہتے ہیں اور حلف آٹھاتے ہوئے سسکیاں بھری آوازیں نکالتے ہیں کہ ذمہ داری کیسے پوری کریں گے دوسری جماعتوں کے لوگ وزراتوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور یہ وزارتیں جوتے کی نوک پر ٹھوکریں مار کر علیحدہ ہو جاتے ہیں محبتوں کے سفیر نے ایک با رڈمہ ڈولہ کے مدرسے پر بمباری میں ٨٠ سے زائد شہادتوں اور اب جماعت اسلامی کے امیر کی ذمہ داری اور پاکستان کے عوام کو جگانے کے لیے سینئر وزیر کی پوسٹ خالی کر دی۔ ایک کالم نگار کے مطابق دنیا دارالزام تراش بے خبرٹی وی اینکر عمر چیمہ،حامد میر اور عبدالمالک نے اپنے پروگراموں میں ٹی وی پر یہ نقش چھوڑا کہ سراج الحق سینئر وزیر بھی ٹیکس چور ہیں۔
ان ٹی وی اینکر کو سراج الحق کی جائیداد ،بنک بیلنس ،مکان اور گاڑیوں کے بدلنے کی پیشکش کی جائے تو تینوں کی روح کانپ جائے گی اور چھپتے پھریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر خزانہ کی ماہوار تنخواہ ہوتی ہے اس میں ٹیکس خود بخود کٹ جاتا ہے اس کے بعد باقی رقم ادا کی جاتی ہے۔کیا یہ دنیا پرست ٹی وی اینکر اس خبر پر اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کر کے عوام کو صحیح صورت حال بتائیں گے۔ کالم نگاروں نے اپنی تحریروں میں جو کچھ کہا وہ قارئین کے سامنے پیش خدمت ہے۔ بندوق کے ذریعے تبدیلی کے خلاف،جمہوری اور آئینی جد و جد پر یقین رکھنے والے امیر، ذہین اور متحرک شخصیت سیاست دان ہیں۔سر پر سفید ٹوپی جو اکثر ٹیڑھی ہوتی ہے، سفید لباس اور سفید چادر والے درویش صفت سیاسی قائد جس کی آنکھوں میں چمک ہے پاکستان کی تکمیل، اسلامی اور خوشحال قائد اعظم کا پاکستان بنا کر ہی دم لیں گے اب ان ہی سے عوام کی امیدیں وابسطہ ہیں کیونکہ ان ہی کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو یہ کام کر سکتی ہے۔
جمہوریت کی علامت جماعت اسلامی،نو منتخب امیر کی تقریب حلف برداری کی داستان جب منصورہ کا دامن تنگ پڑ گیا۔ جرمنی کے بیرونی دورے پر فائیو اسٹار ہوٹل میں رہائش کی بجائے تین دن مسجد میں گزرانے والے سینئر وزیر ،پشاور سے لاہور منصورہ تک سفر کا خرچہ صرف٥٤٣ روپے ،جو خیبر پختونخواہ کے خزانے سے چارج کیا گیا!مقابل میںکوئی ایسا کفایت شعار وزیر ہے تو پیش کیا جائے؟ عوام یہ کہنے پرمجبورر کہ ہے کوئی ہم سا۔ ۔ ۔ ہم سا ہے جو سامنے آئے؟ سراج الحق، جماعت اسلامی کا نیا دور تمام جدید ضروریات سے ہم آہنگ،اپنے ماننے والوں کے لیے کشادہ روی کا پیغام لیے، سراج الحق اتحاد کے حامی درویش صفت طبیعت اور مجاہدانہ اوصاف کی وجہ سے عوام میں مقبول ، رومانیت سے حقیقت پسندی تک والی شخصیت وقت کی آوازہیں۔ہمارے ملک میں سیاست دانوں کی پرورش سرمایا د اروں،وڈیروں،جاگیرداروں اوروارلارڈز کے ماحول میں ہوتی ہے۔
وہ کیا جانیں کہ غریب کے دن کیسے گزارتے ہیں وہ تو ایسی سوچ رکھتے ہیں کہ غریب کو روٹی نہیں ملتی تو بسکٹ کیوں نہیں کھاتے۔ سراج الحق نے غربت میں آنکھ کھولی اور وہ ہی غریب کا درد جانتے ہیں۔پھر جس ماحول میں اُن کی تربیت ہوئی وہ پسے ہوئے طبقوں کو جگانے کا پروگرام رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے مینا رپاکستان پرغریبوں کی مراعات کا پروگرام پیش کیا جس کا روڈ میپ ٢٥ دسمبر کو قائد اعظم پر کراچی میں پیش کریں گے۔
قارئین!کالم نگاروں کی تحریروں کے ایک باغ میں سے خرم بدر نے ایک گلدسہ ترتیب دیا ہے کا نام ہے ”محبتوں کا سفیر سراج الحق” جو تحفتاً مجھے ملی اور تبصرے کا کہا گیامیں نے اس کا مطالعہ کیا ۔جذبات آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں اب آپ منصب ہیں ۔کیا آیندہ ایسی لیڈر شپ کو ملک کے معاملات نہ سونپے جائیں جس کی قیادت سراج الحق کر رہے ہیں جوپر امن جمہوری اورآئینی طریقے سے ملک میں تبدیلی کا پروگرام رکھتی ہے؟ یا وہی پرانی گھسی پٹی کرپٹ، بددیانت، مورثی، بیڈ گورنس ،مغرب سے خوف زدہ، دھونس دھاندلی اور فراڈ کی پیداوار، الیکشن میں کروڑ لگا کر عوام کے خزانے سے اربوں کمانے والوں کے حوالے کیا جائے۔
تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com
www.mifafsaramanfacebookcom