عیدالضحیٰ پراس مرتبہ تین پاکستانی فلمیںنمائش کے لیے سینماگھروں میں پیش کی گئیں،جن کے نام ”زندگی کتنی حسین ہے“اور”جانان“کے علاوہ”ایکٹراِن لا“ہیں۔امید یہ کی جارہی ہے،ان تینوں میں سے فلم”ایکٹراِن لا“زیادہ کامیابی حاصل کرے گی،جس کی وجہ اس فلم کامنفرد موضوع ہے۔
یہ ہلکے پھلکے انداز میں بنائی گئی ایسی فلم ہے،جس میں عوام کی تفریحی دلچسپی کوبھی مدنظر رکھاگیاہے، اس کی کہانی سماجی مسائل کاحل،انصاف کی بروقت فراہمی،ادھورے خوابوںاورتشنہ آرزوﺅں کی تکمیل سمیت کئی موضوعات کااحاطہ کرتی ہے۔
یہ فلم پاکستان سمیت کئی ممالک میں نمائش کے لیے بیک وقت پیش کردی گئی ہے۔پاکستان کے مختلف شہروں اوردبئی میں اس کے پریمیئرشوز بھی ہوئے۔
لیکن کیا یہ فلم واقعی ایسی ہے ،جو باکس آفس پر کامیاب ہوسکے گی؟ تو اس کے لیے ذرا تفصیل میں جاناپڑے گا۔
کہانی وکردار:
فلم کی کہانی نئی نہیں،مگراس کوپیش کرنے کاانداز بہت دلچسپ ہے۔
ایک نوجوان(فہدمصطفی) جس کو وکالت کاپیشہ والد سے وراثت میں مل اہے،مگروہ اداکار بننا چاہتا ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس شوقیہ اداکار کوجب شوبزمیں کہیں موقع مناسب موقع نہیں ملتا تو پھر وہ ورثے میں ملے ہوئے پیشے کے ذریعے ہی اپنے فن کو ثابت کردکھاتا ہے،یعنی عدالت میں فنکاریاں دکھاتا ہے۔
اس جدوجہد میں پہلے وہ خودہمت کرتا ہے،پھرعوام اس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں،آخرمیں اس کاسخت گیر باپ (اوم پوری)بھی بیٹے کی انسان دوست کوششوں کاقائل ہوکراس سے کاندھے سے کاندھا ملاکرکھڑا ہوجاتا ہے۔ فلم میں بانی پاکستان ،قائداعظم محمد علی جناح کی اداکاری سے دلچسپی کوبھی موضوع بنایاگیا،یہ ایک اچھی تحقیق ہے،ہمارے ہاں اکثریت قائد اعظم کے اس پہلو سے واقف نہیں ہے۔
فلم غور سے دیکھی جائے توکہانی تین حصوں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے، پہلا اور آخری حصہ دلچسپ ہے، درمیانی حصے پر کہانی کارکی گرفت کمزور پڑگئی۔کہانی میں پاکستان کے میڈیا کی شمولیت ایک منفرد پہلو تھا،مگرکہانی نویس نے غیرحقیقی انداز میں اس کو لکھ کر ضائع کردیا۔
کہانی لکھتے وقت ہندوستانی سینما کی سوشل فلموں کوسامنے رکھاگیاہے،شاید یہی وجہ ہے اس فلم کی کہانی پربولی ووڈ غالب ہے، پھربھی فلم کی پیشکش کاانداز اچھا ہونے کی وجہ سے فلم دیکھی جاسکتی ہے۔
فلم کے کرداروں میں سب سے مضبوط کردار اوم پوری کا ہے ،جو وکیل بنے ہیں،اگروہ اس فلم کاحصہ نہ ہوتے،توشاید کہانی کے جذباتی مناظر کو سنبھالنا زیادہ مشکل ہوتا، فلم میںان کی جاندار اداکاری شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتی ہے۔ فلم کادوسرا اہم کردار فہد مصطفی نے اداکیاہے،وہ ایک شوقیہ اداکاربنے ہیں۔
ان کی اداکاری متوازن ہے،لیکن اگر وہ یونہی اداکاری کرتے رہے،توان پر مخصوص اداکار ہونے کی چھاپ لگ جائے گی ،جس طرح پڑوسی ملک میں شاہ رخ ایک خاص قسم کے کرداروں میں پھنس گئے ہیں۔
فلم کاتیسرامرکزی کردار مہوش حیات نے اداکیاہے،جوایک ٹی وی چینل کی رپورٹر بنی ہیں۔
اس کردار کوجتنا غیر حقیقی انداز میں لکھاگیا،اس سے بھی زیادہ برے طریقے یہ مہوش حیات نے اداکیا۔ انگریزی میں اس کو”اُوورایکٹنگ“بھی کہا جاتا ہے، بری اداکار ی پر اگر اس فلم کوکوئی اعزاز ملا،تومہوش حیات اس کی مستحق ہوں گی۔
اداکاری کے لیے صرف خوبصورتی کافی نہیں ہوتی،یہ بات ان کو سمجھ لینی چاہیے۔فلم کاایک اورکردار سلیم معراج نے بھی کیا ہے،جنہوں نے مختصر کردارمیں بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔فلم کے دیگر ذیلی کرداروں میں علی خان،عرفان موتی والا،صبورعلی،سیف حسن،نیراعجاز،ریحان شیخ ،طلعت حسین، نورالحسن، لبنی اسلم، راشدخواجہ، خالد احمد، احسن طالش، محمودسلطان، طارق جمیل، کامران مجاہد، اسلم شیخ، ثنابچہ، انوشے عباسی اوردیگر شامل ہیں۔ان تمام فنکاروں نے اپنااپناکام بخوبی نبھایاہے۔کچھ حقیقی صحافیوں کو بھی فلم میں اپنے اداکارانہ جوہر دکھانے کاموقع دیاگیا،جس کاتجربہ دلچسپ رہا۔
فلم سازی وہدایت کاری:
اس کی فلم ساز اورکہانی نویس فضاعلی مرزا ہیں،جنہوں نے اس پہلے فلم ”نامعلوم افراد“بھی بنائی تھی۔گزشتہ فلم کی طرح یہ فلم بھی باکس آفس پرکامیابی حاصل کرے گی،کیونکہ فلم میں تمام مصالحے شامل ہیں۔تشہیر کے لیے جتنے جدید طریقے اختیار کیے جانے چاہییں،ان کوبھی استعمال کیاہے،حتیٰ کہ ہندوستانی اداکاروں کی ہمارے ہاںجو پسندیدگی کاعنصرہے،اس کو بھی اوم پوری کی صورت میں کیش کرانے کی کامیاب کوشش کی ۔
نبیل قریشی نوجوان ہدایت کار ہیں،ان کی ہدایت کاری کاشعبہ کافی مضبوط رہا۔کرداروں کی تقسیم ،مناظر کی ایڈیٹنگ، لائٹنگ، شوٹنگ کے لیے جگہوں کاانتخاب،ڈریسز،ساﺅنڈسمیت تمام پہلوﺅں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے،سوائے اس بات کے، سماجی مسائل کوجس طرح بولی ووڈ انداز میں فلماکرحل کرنے کی کوشش کی گئی ،وہ نہ توکبھی ہندوستان میں حل ہوسکے اورنہ ہی یہاں ہوں گے،سوشل موضوعات کاتقاضایہ ہوتاہے،حقیقت سے قریب رہ کر فلم بنائی جائے،جس میں کہانی نویس اورہدایت کار کاکلیدی کردار ہوتاہے،صرف ”فینٹسی“سے گزارا نہیں ہوگا۔ فلم میں کہیں کہیںباریک غلطیاں بھی ہیں ،مثال کے طورپر شان مرزا(فہدمصطفی) مینا اسکرو والا(مہوش حیات)کو ویسپا پر ان کے گھر پہنچانے جارہے ہوتے ہیں،راستے میں اسکوٹر خراب ہونے پر وہ دونوںرات بھر اسکوٹر کے ہمراہ پیدل چلتے رہتے ہیں،حتیٰ کہ اگلادن طلوع ہوجاتاہے۔
موسیقی:
فلم میں موسیقار نام کی توکوئی چیز نہیں ہے،البتہ شانی ارشد نے بیک گراﺅنڈ اسکور کے علاوہ ایک ٹائٹل سونگ کمپوز کیاہے،جس کو گایابھی خود ہے۔ وہ نئے موسیقار ہیں، ان کا کوک اسٹوڈیو میں کیاہواکام قابل تعریف ہے،مگرفلمی موسیقی کے مزاج سے آشنا ہونے کے لیے کافی وقت چاہیے۔ فلم میںدیگر دو گیت عاطف اسلم اورراحت فتح علی خان کے ہیں ۔عاطف کاگانا بھرتی کاہے،جس کو فلم میں شامل ہونے کی وجہ سے زبردستی سننا پڑے گا۔ راحت فتح علی خان کاگیت اچھا ہے۔گیت نگاروں کے بارے میں بھی کوئی تفصیل نہیں ملتی،کس نے کون ساگیت لکھاہے۔اس فلم موسیقی کے متعلق بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں ،توبہتر ہے۔
نتیجہ:
پاکستانی جدید سینما کے عہد میں ایسی فلموں کی ضرورت ہے،جن کوباکس آفس پر کامیابی حاصل ہوسکے،اس فلم کاشمار ایسی فلموں میں ہی ہوگا،لیکن اگر فلم سازی میں فارمولے کوتخلیق پر ترجیح نہ دی گئی،توفلمی صنعت کایہ عروج وقتی ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے ،پڑوسی ملک میں فارمولااورغیرفارمولا دونوں طرح کی فلم سازی ہورہی ہے،جس سے ہمارے فلم بین واقف ہیں،اس لیے انہیں آپ زیادہ دیر تک اندھیرے میں نہیں رکھ سکیں گے۔