تحریر : رقیہ غزل
اس روئے زمین پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لیے جن برگزیدہ ہستیوں کو مبعوث فرمایا انہیں انبیا و رسل کہتے ہیں نبوت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ سلام سے شروع ہوا اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی رشدو ہدایت کے فرائض ادا کرتا ہوا پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کر دیتا ہے ۔جس میں ایک خورشید دنیائے انسانی کی ظلمت و جہالت کو مٹانے کے لیے آخری اور کامل شمع ہدایت لیکر بزم ہستی میں نمودار ہوا جسے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں آج پوری نوع انسانی کے پاس صرف یہی آخری اور حتمی سرچشمہ ہدایت موجود ہے قرآن کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو ہمارے لیے ایک واجب نمونہ قرار دیتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوةحسنہ”تمہارے لیے رسول اللہۖ کی زندگی بہترین نمونہ ہے ” زندگی کا کونسا ایسا معاملہ اور معیار ہے جو آپ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو ۔اللہ تعالی نے نبی کریم ۖکو مبعوث فرما کر دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں کی بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلے کو بھی آپ ۖکی ذات اقدس پرکامل اور ختم کر دیا ہے کہ آج کے بعد ایسے اعلیٰ و ارفع اخلاق و کرداراور سیرت و شریعت کے کوئی صورت یا نوع اظہار کا تصور بھی ناگزیر ہے کہ جس کی اطاعت و پیروی کرنے کی اجازت یا ضرورت ہو۔
وہ دانائے سبل، ختم الر سل، مولائے کُل
جس نے غبارہ راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا
نگاہ عشق و مستی میں، وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسین، وہی طہٰ
بعثت سے پہلے اہل عرب ہی نہیں ایک مکمل دنیا تہذیبی ،اخلاقی اور معاشرتی گراوٹ کا شکار تھی کیونکہ خدائے وحدانیت اُس کی یکتائی سے عبارت اور اس کے واحد خالق ،مالک اور ہر طرح سے اسے یکتائی میں کا مل یقین رکھنے کا تصور ہی مفقود ہو چکاتھا ،یہودی اور عیسائی اپنی اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کے مرتکب ہو چکے تھے اور شریعت کے وضع کردہ اصول و قوانین کی جگہ ایسے قوانین اور ضابطہ حیات کو اپنا چکے تھا کہ جو ان کی اپنی طبیعت، مزاج اور پسند کے مطابق تھے سرورِکونین ،رحمت العالمین ،محمد رسول اللہ ۖکی آمد سے پہلے عرب کو ”جلی ہوئی زمین ” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا سارا معاشرہ جہالت و بربریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا۔درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ،بے حیائی اور بے راہ روی عام تھی ،قتل و غارت گری اور فسادات کا بازار گرم تھا ،جوااور شراب طاقتور کی پہچان تھا ،بدکاری معمولی بات سمجھی جاتی تھی ،لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ،عورت کو معاشرے میں سب سے کم تر مقام حاصل تھا یہاں تک کہ زرخرید غلام سے بھی زیادہ حقیرجنس عورت کو سمجھا جاتا تھا ،حقارت وباہمی کشمکش انسان کو انسان سے جدا کر چکی تھی۔
کفر و شرک کی دلدل میں سارا معاشرہ دھنس چکا تھا اور اس کے تعفن سے فضا بھی بد بو دار ہو چکی تھی ،غریب کی حالت جانوروں سے بھی دگرگوں تھی ،روئے زمین پر وحدانیت کا تصور ختم ہو چکا تھا ،قبائل اپنے اپنے خدا تراش چکے تھے اور ان کی پیشانیاں معبودان باطل کے سامنے جھکتی تھیں کدورت و زنگ کے تالے ان کے دلوں پر پڑ چکے تھے ،احساسات و جذبات کا جنازہ اٹھ چکا تھا ،انسانیت آخری سانسیں گن رہی تھی ،جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ اس دور کا انسان بربادی کے دہانے پر کھڑا تھا کہ رحمت حق کو رحم آیا اور ان کی رشد و ہدایت کیلیے اللہ نے اپنا پیغمبر بھیجا ۔ ” یا ایھاالناس قولو الاالہ الا اللہ تفلحو ”اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہو اور فلاح پا جائو ”۔اور اللہ کے سوا دوسروں کوپکارنے والوں کویہ فہم و شعوراور پیغام ربانی دیا کہ ”اس اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے ہووہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلے کے برابر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے ”یہ پیغام اس قدر طاقتور تھا کہ یہ پکار بن کر عرب معاشرت کے باطل کدوں کو لرزا گیا اوروہ چیخ اٹھے حالات اس قدر دگر گوں ہوئے اور ایسا فکری انقلاب بپا ہو گیا کہ ہر وہ کہ جس میں عقل سلیم تھی اور اسے قبر و حشر میں نجات مطلوب تھی سوچنے پر اور بالآخر پیرویٔ رسول پر آمادہ ہونا شروع ہو گیا اور منظر یہ تھا کہ :
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
وہ آواز حق ایک ایسے عظیم الشان فلاحی اور روحانی انقلاب کی ابتدا تھی کہ جس سے نظام جاہلیت کے بت کدوں میں گھنٹیاں بجنے لگیں انمٹ تاریخ رقم ہوئی اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوئی ۔اللہ تعالی نے اس ہادی کاملۖ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور آپ کی شخصیت کی ہمہ گیریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان تو مسلمان کفار مکہ بھی آپ ۖکے سامنے بالآخر مہر بلب تھے اور آپۖ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے ۔کہیں ایک اشارے سے خداکے عطا کردہ معجزات کی بدولت چاند ٹکڑوں میں بٹا اور کہیں تھوک سے اتنا کھانا بڑھا کہ سینکڑوں سیر ہوئے ،کہیں بیماروں کو شفا ملی اور کہیں بے سہاروں کو سہارا ملا۔اوصاف حمیدہ کا عالم یہ تھا کہ جو ایک بار آپ سے مل لیتا وہ کلمئہ حق پڑھنے پر تیار ہو جاتا۔میرے پیارے نبی ۖنے زنگ آلود دلوں کو محبت الہی سے منور کیا اور پیغام حق سے مردہ زندگیوں کو نوید حیات بخشی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ بت پرست بت شکن بن گئے ،توہم پرست ہادی برحق کے متوالے بن گئے،بدکار پرہیزگار بنے ،ظالم مہربان ہوئے ،ریاکار وفادار ہوئے ،شرابی اور جواری تہجد گزار ہوئے،آپس میں دست و گریبان رہنے والے شیر و شکر ہوئے ،عورتوں کے بدن کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے شیطان عورت کے نگہبان بنے ، راہزن راہبر ہوئے اور ظالم عادل بن گئے ،طاقتورکمزوروں کے رکھوالے بنے اور شاہ و فقیر ایک ہی دستر خوان پر تناول چننے لگے ،نفرت و عداوت ایثار و قربانی میں بدل گئی اور اخوت و بھائی چارے کا عالم یہ ہوا کہ اجنبی بھائی بھائی بن گئے عبادات کی تربیت نے سب کو برابری اور احترام میں کچھ ایسابرابر کیا کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
فخر موجودات ،امام الانبیا ،پیغمبر آخر الزمان پیارے رسولۖ نے جب اعلان توحید کیا تو ایسے ایسے مصائب و آلام دیکھے کہ آسمان بھی لرز اٹھا اور فرشتہ خدا کا پیغام لیکر آگیا کہ ”اے رسول اللہ ! اگر آپ کہیں تو دو پہاڑوں کو ساتھ ملا کران بد بختوں کو ملیا میٹ کر دیں ” مگر میرے پیارے نبی ۖنے فرمایا !” نہیں ،یہ نہیں جانتے یہ کس کو پتھر مار رہے ہیں مجھے یقین ہے یہ آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کے پیامبر ہونگے ” کوئی اور ہوتا تو حوصلہ ہی چھوڑ دیتا یہ مشن ترک کر دیتا مگر وہ رسول اللہ تھے جومکارم اخلاق ،عظمت و ثابت قدمی کا اعلٰی نمونہ تھے! آپ کو ہر قدم پر ستایا اور ایذا دی گئی ،بہتان لگایا گیا ،مجنوں، دیوانہ ،ساحر ،کاہن کا لقب دیا گیا راستوں میں کانٹے ،پتھر ،غلاظت بچھائی گئی ،یہاں تک کہ آپ کی اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ تک کر دیا گیا مگر آپ نے ہر ظلم و ستم اور ہر زیادتی کا جواب صبر و شکر خدا اور احسن طریقہ سے دیا ،منافقین کے دوغلے پن کو جانتے بوجھتے ان سے ہمیشہ نرمی اور معافی کا برتائو کیا ،ایسا وقت بھی آیاجب آپۖ کو بھیگی آنکھوں سے مکہ کو خیر آباد کہنا پڑا اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی اور یوں مدینہ تبلیغ اسلام کا مرکزبن گیا اور شہر نبیۖ کہلایا کوہ صفا سے بلند ہونے والی آواز حق مدینہ کی فضائوں میں بکھری اور رفتہ رفتہ پیغام حق پوری دنیا میں پھیل گیا اور آخر کارتوحید کو منکروں کو ہار ملی اور مکہ بھی فتح ہوگیا اور تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ٹھہرا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت ”حج ”کے لیے پوری دنیا سے مسلمان اس سرزمین کا رخ کرتے ہیں مگر کفارجنھوں نے آپۖ کو اس سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھاوہ اس سرحد کو پار کرنے کی بھی جرات نہیں کر سکتے یہ تھا اصل انقلاب جس سے علم و انسانیت کے سوتے پھوٹے اور دکھی دلوں کو منزل مقصود ملی۔
خالق ارض و سما نے تا حشر اپنے نبیۖ کو اخلاق حسنہ کے بلند ترین درجے پر فائز فرمایا کہ قرآن میں کہا کہ” اِنک لعلیٰ خلقٍ عظیم ”۔ اور ”حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ کا خلق قرآن ہے ”یعنی قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے اخلاق حسنہ ،خصائل حمیدہ اور شخصیت مقدسہ کا جو تذکرہ فرمایا ہے اس کا عملی نمونہ آپ کی ذات مبارکہ میں موجود ہے ۔بلاشبہ میرے نبی پاک کی ہمہ گیر شخصیت اوراوصاف کے بیان کے لیے ساری دنیا کے قلم اور کاغذ نا کافی ہیں اور نہ مجھ میں اتنی قابلیت واہلیت ہے کہ میں اس ذات مبارکہ کی مدحت بیان کروں جو پوری دنیا کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہیںمیرا قلم تو اس ارفع ذات کا ایک گوشہ بھی بیان نہیں کر پایا نہ اس میں اتنی سکت ہے بس اتنا کہوںگی کہ آج پورے عالم اسلام اور پوری انسانیت کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اوصاف حمیدہ کا مطالعہ کریں اور دونوں جہانوں سے نجات کیلئے سیرت رسول تک محدود رہیں۔
انسانی معاشرے تعلیم و تربیت ۔ اخلاق حسنہ اور عدل و انصاف سے ہی عروج و استحکام حاصل کرتے ہیں اور آج بھی جو معاشرے گراوٹ کا شکار ہیں اس کی وجہ اسلام سے دوری اور مندرجہ بالا اوصاف کا نہ ہونا ہے ۔بحثیت امت محمدی آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی انفرادی ،اجتماعی ،معاشی ،معاشرتی ،تہذیبی ،اخلاقی ،روحانی اور قومی زندگی کوہر کس و ناقص کی بجائے صرف سنت رسول کے تابع کر دیںکیونکہ آج جو انتشار و بے یقینی ہمارا مقدر بن چکی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نبی ۖ کے پیغام کو یکسر فراموش کر دیا ہے ہم ایک بار پھر کفار کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں اور ضلالت و گراوٹ ہمیں مسلسل مٹا رہی ہے ہم نے بھلا دیا ہے کہ اسلام نے ہی آزادی ،وقار اور تشخص بخشا تھا اور ہمیں حلم ،بردباری ،تحمل ،عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی تھی اور میرے نبی پاک ۖ نے اس کا عملی نمونہ دشمنوں کے ساتھ بھی پیش کیا تھا مگر ہم تو اپنوں کے ہی دشمن بن بیٹھے ہیں بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے عدم برداشت کا عالم یہ ہے کہ مسلکی اور مذہبی منافرت پر قتل و غارت گری عام ہے،فحاشی و بے حیائی کا حال یہ ہے کہ عورت لباس میں بے لباس ہو کر کھلونا بن چکی ہے۔
عورت کا استحصال شدت اختیار کر گیا ہے ،قوم لوط کی برائی بھی ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل رہی ہے ہم نبی پاک ۖ کے پیغام و قرآن کو یکسر فراموش کر کے فرقوں اور ذاتوں میں الجھ گئے ہیں اور انتہا پسندی کی حد تک جا چکے ہیں ،ہماری پیشانیاں پھر پتھروں اور قبروں کے آگے جھکنے لگی ہیں اور ہم نے اللہ کے سوا کئی معبود اور راحت روا بنا لیے ہیں ہم اپنی تہذیب و ثقافت پر شرمندگی محسوس کرنے لگے ہیں ہم کلیسا و مندر کے بت کدوں میں سر ٹکرا رہے ہیں مگر اس پیغام کو اپنانے سے جھجک رہے ہیں جس میں ہماری دنیاوی اور اخروی نجات پوشیدہ ہے۔
کیا قیامت ہے کہ وہ تین سو تیرہ تھے اور فاتح ٹھہرے آج ہم مال و متاع حیات سے لدے ہوئے ان گنت ہیں مگرپریشان ،لاچار اورخوار ہیں ۔آج بحثیت امت محمدیۖ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مر کر شفاعت نبی ۖ نصیب ہو اور ہماری دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنور جائے ۔تو۔۔ہمیں سوچنا ہوگا اورعہد کرنا ہوگا کہ ہم سیرت النبیۖ کی یقینی پیروی اوردین اسلام کی سر بلندی کے لیے کوشش کریں گے اور اپنی اخلاقی اقدار پر آنچ نہ آنے دیں گے کہ ہمیں دیکھ کر ایک بار پھر دنیا کہہ اٹھے کہ اگر امت ایسی ہے تو پیغمبر کیسا ہوگا ؟۔
برادران اسلام ایک پیغام جو آخر میں پہنچانا ہے کہ نبی رحمت ۖ نے جس طرح صبر اور تحمل سے انسانیت کو بدلا تھا اسی طرح برداشت اور مستقل مزاجی پر مبنی مثبت تبلیغ کے ذریعہ ہم ایک بار پھر خود کو اور اپنوں کو راہ راست پر لا سکتے ہیں ۔فرقہ بندی ،مذہبی منافرت اور دوسروں کی دل آزاریاں کرنے سے اسلام کے پیغام کی روح بگڑ جاتی ہے اللہ کے نبی نے خدمت انسانیت اور فلاح انسانی کیلئے کام کیا تھا مگر آج دہشت گردی اور دلوں میں کفر رکھ کر ہم غلط رویوں پر چل نکلے ہیں !اللہ کے نبی نے فرمایا تھا کہ ”تم میں سے بہترین وہ ہیں جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہیں ”مگر ہم اپنوں اور دوسروں کے خلاف نفرت کے عزائم ،تقاریر اور لٹریچر پھیلا کر اسلام کی عزت ،عظمت کو خراب کر رہے ہیں ۔خدارا کوشش کی جائے کہ مسلمان پیغام رحمت اور اسلام کا داعی رہے اور پاکیزہ مشن کے ساتھ اسلام کا سفیر بنے اس سے ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی اور اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں ہمیں یقینی طور پر جنت عطا ہوگی۔
تحریر : رقیہ غزل