تحریر : ظفر اعوان ایڈووکیٹ
ملک ممتاز حسین قادری کو ، بظاہر قتل کے بدلے قتل کے قرانی اور ملکی قانون کے تحت پھانسی چڑھانے والے ہر شخص( بشمول حکومت ، پارلیمنٹ ، عدلیہ اور لا دین عناصر اور ان کے مربی و ہم نوا غیر ملکی طاقتیں ) سن لیں اور جان لیں کہ یہ خون کا بدلہ خون نہیں ، بلکہ ایڈمنسٹریٹو اور جوڈیشل مرڈر ہے اور ذمہ داروں میں ایف آئی آر کا حکم دینے والوں سے لے کر مسٹر ممنون تک سب لوگ شامل ہیں ۔آج نہیں تو کل ، یہ تمام لوگ کٹہرے میں ہوں گے اور ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 سی اور 302 کے تحت مقدمات چلا کر انہیں ممتاز قادری کی طرح پھانسی پر لٹکایا جائے گا لیکن کسی جیل میں چپکے سے نہیں ، سر عام چوراہوں پر ! اللہ کے گھر میں دیر ہے ، اندھیر نہیں !جو عقل کے اندھے اس تمام کاروائی کو خون کا بدلہ خون قرار دے رھے ہیں ، وہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ، راقم کی اس پیٹیشن کو ، جو ممتاز قادری کا ٹرائیل شروع ہونے سے بھی پہلے دائر کی گئی تھی اور جو اسلام آباد ھائی کورٹ کے سنگل اور ڈویژن بنچ کے فیصلوں کے خلاف ہے ، دل کڑا کر کے پڑھ لیں ، انہیں علم ہو جائے گا کہ قانون توہین رسالت ، مافوق آئین اور ما فوق قوانین
قانون ہے
بعدالت عظمیٰ پاکستان، اسلام آباد
( اپیل جیورسڈکشن )
درخواست برائے اجازت اپیل نمبری ۔۔۔84۔۔۔/٢٠١١
ظفر اعوان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ C/O بار ایسوسی ایشن تلہ گنگ ، ضلع چکوال
بنام
سرکار بذریعہ حاکم خان ایس ایچ او تھانہ کوہسار ، اسلام آباد
درخواست برائے اجازت اپیل زیر دفعہ ١٨٥( ٣ ) آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان مجریہ ١٩٧٣ء بناراضی فیصلہ مورخہ ٢٦ء جنوری ٢٠١١ء مصدرہ ازاں ڈویزن بنچ عدالت عالیہ اسلام آباد ( مشتمل بر چیف جسٹس اقبال حمید االرحمان و مسٹر جسٹس ریاض احمد خان ) جس کی رو سے انہوں نے اپیلانٹ کی طرف سے دائر کردہ انٹرا کورٹ اپیل نمبری 7/11 اور متفرق درخواست برائے روکنے سماعت مقدمہ نمبری 6/11 ، پی ایس کوہسار ، اسلام آباد ، کویہ قرار دیتے ہوئے IN LIMINI خارج فرمایا کہ انٹرا کورٹ اپیل MAINTAINABLE نہیں کیونکہ اپیلانٹ متاثرہ شخص ( AGGRIEVED PERSON ) نہیں ہے ۔
FACTS
وہ حالات و واقعات جن میں اس درخواست میں اٹھائے گئے انتہائی عوامی اہمیت کے آئینی و قانونی سوالات پیدا ہوئے ہیں ، وہ یہ ہیں :
١۔ یہ کہ درخواست گزار نے عدالت عالیہ اسلام آباد میں ایک رٹ درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت سے یہ استدعا کی کہ ایس ایچ او پی ایس کوہسار اسلام آباد کو طلب کرکے اس سے پوچھا جائے کہ کوئی قابل دست اندازی پولیس جرم سرزد نہ ہونے کے باوجود ، اس نے کس آئینی و قانونی اختیار سے ایف ّئی آر نمبری 6/11 درج کی اور کس اختیار سے اس میں ممتاز قادری کو گرفتار کر رکھا ہے
کیوں نہ یہ معزز عدالت خود اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ سی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے تحت پرچہ درج کرنے کا حکم دے ؟ یہ درخواست ابھی عدالت نے TAKE UP نہیں فرمائی تھی کہ اپیلانٹ نے ایک متفرق درخواست دی کہ چونکہ چالان کیس کی سماعت چوبیس جنوری سے شروع ہونے والی ہے ، اس لئے تافیصلہ رٹ درخواست کاروائی روکنے کا حکم جاری فرمایا جاوے ، ہر دو درخواستہائے بیس جنوری کو مسترد ہوئیں۔
٦۔ یہ کہ رٹ درخواست مسترد ہونے کی وجوہ حسب ذیل ہیں :
a) There is no denial that in a muslim country none can be permitted to say any thing against the honour of Holy prophet HAZRAT MUHAMMAD ۖand at the same time none can be allowed to take law into his own hands .Keeping this in view , legislature imposed the law in this regard and section 295.c was incorporated to deal with such matters .Any body attempting or committing the offence under section 295 .c would be dealt with in accordance with law by the court .Because the courts have been given powers to decide about the guilt or innocence of a person after appreciating proper evidence
b) If individuals start taking law into their own hands , it would creat chaos in the society because such punishments by individualswould be without the proof of allegation .
C. The state is responsible to register criminal cases and sent the accused before the competent court to face the trial , therefore in the present circumstances the procedure of law can not be disturbed .
D. Islam is the religion of peace and tolerance;and , in such matters where offences under section 295 .c are said to be committed , the relevant law should be brought into motion and the courts would decide the cases in the light of relevant evidence
٤۔ یہ کہ درخواست گزار نے رٹ درخواست مسترد ہونے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جو ٢٥ ء جنوری کو ایک ڈویژن بنچ کے سامنے پیش ہوئی اور درخواست گزار کی معروضات سننے کے بعد اس روز فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ، جس کا اعلان ٢٦ء جنوری کو ہوا اور انٹرا کورٹ اپیل کو اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا کہ یہ MAINTAINABLE نہیں کیونکہ اپیلانٹ متاثرہ (AGGRIEVED PERSON ) نہیں ، IMPUGNED ORDER میں درج کردہ وجوہات حسب ذیل ہیں
3. LEARNED COUNSEL FOR THE APPELLANT HAS NOTBEEN ABLE TO SUBSTANTIATE ANY GROUND BEFORE US ON ACCOUNT OF
WHICH WE WOULD LIKE TO INTERFERE IN THE IMPUGNED ORDER PASSED BY THE LEARNED SINGLE JUDGE IN CHAMBER .IT HAS RIGHTLY BEEN OBSERVED BY THE LEARNED SINGLE JUDGE IN CHAMBER THAT THERE IS NO DENIAL THAT IN A MUSLIM COUNTRY NONE CAN BE PERMITTED TO SAY ANY THING AGAINST HOLY PROPHET ( S.A.W.S.)AND AT THE SAME TIME NONE CAN BE ALLOWED TO TAKE LAW INTO HIS OWN HANDS AND IN VIEW OF THE SAME IT IS HELD THAT WHERE OFFENCES U/S295A.PPC ARE COMMITTED , THE RELEVANT SHOULD BE BROUGHT INTO MOTION BUT IN THE PRESENT CASE THE ACCUSED MALIK MUMTAZ HUSSAIN QADRI HAS TAKEN THE LAW INTO HIS OWN HANDS , THEREFORE , THE LEARNED SINGLE JUDGE IN CHAMBER HAS RIGHTLY DISMISSED THE WRIT PETITION ON MERITS .
4. EVEN OTHERWISE, THE APPELLANT WAS NOT COMPETENT TO FILE THE WRIT PETITION AS HE WAS NOT AN AGGRIEVED PERSON , AS SUCH , ON THE SCORE OF MAINTAINABILITY WAS ALSO NOT TO BE ENTERTAINED .IN VIEW OF THE SAME , THE WRIT PETITION ALSO REQUIRED TO BE DISMISSED ON THE GROUND OF MAINTAINABILITY .
5. IN VIEW OF THE ABOVE PERSPECTIVE , WE FIND NO MERIT IN THIS APPEAL ON BOTH THE SCORES AND THE SAME IS DISMISSED IN LIMINE.
٥۔ یہ کہ عدالت عالیہ کے سنگل بنچ اور ڈویژن بنچ کے احکام ، منجملہ دیگر ، بوجوہ ذیل لائق تنسیخ ہیں :
LAW POINTS
یہ کہ اس درخواست برائے اجازت اپیل میں ، مذکورہ بالا حالات و واقعات میں انتہائی عوامی اہمیت کے جو سوالات ( منجملہ وہ سوالات جو رٹ درخواست اور انٹرا کورٹ اپیل میں اٹھائے گئے تھے ) پیدا ہوتے ہیں ، وہ حسب ذیل ہیں :
( الف ) نبی کریم ۖ کی توہین اور اس پر ہونے والے رد عمل کے معاملے میں مملکت اسلامیہ پاکستان کا ہر مسلمان شہری ( از روئے ایمان ) ایک متاثرہ فرد ( AGGRIEVED PERSON) نہیں اور کیا آئین کا آرٹیکل ١٩٩ ، اور اس کی تمام ذیلی دفعات ( بحیثیت مجموعی ) عدالت سے رجوع نہ کرسکنے کی کوئی پابندی عائد کرتی ہیں ؟
جواب : درخواست گزار نہایت ادب سے عرض کرتا ہے کہ اس مخصوص معاملے اور مخصوص صور تحال میں نہ صرف درخواست گزار ( بحیثیت ایک مسلمان شہری اور ایک ایڈووکیٹ کے ) بلکہ ہر مسلمان شہری ایک AGGRIEVED PERSON ہے اور اسے کسی بھی عدالت سے رجوع کرنے کا LOCUS STANDIE حاصل ہے ۔
( ب ) کیا درخواست گزار کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی درخواست کو CERTIORARI , HABEAS CORPUS, MANDAMAS, PROHIBITION or QUO WARRANTO میں سے کسی کا نام دیتا ؟
جواب : ادب سے عرض ہے کہ عدالت درخواست کے CONTENTS اور مطلوبہ داد رسی کو دیکھنے اور یہ تعین کرنے کی پابند تھی کہ اگر آئین کے تحت حاصل شدہ حقوق ( بالخصوص آرٹیکل ٢٠ )کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کسی ایسے شخص پر قتل جیسے سنگین جرم کا الزام لگا دیا گیا ہے جس نے بحیثیت مسلمان ( اپنے مذہب کے مطابق ایک فرض ادا کرتے ہوئے ) ایک ایسے فرض کی ادائیگی کی جو اٹھارہ کروڑ مسلمانوں میں سے ہر ایک پر لازم تھا ، تو عدالت اس کی کیا امداد کرسکتی ہے ؟
( ج ) کیا عدالت عالیہ کا MAINTAINABILITY اور AGGRIEVED PERSON کا اعتراض آئین سے روگردانی اور تجاوز نہیں ؟
جواب : نہایت ادب سے عرض ہے کہ اس طرح آئین اور اس معزز عدالت کے اب تک کے تمام فیصلوں پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا ے اوردرخواست گزار کی عاجزانہ رائے میں بظاہر اس کا سبب یہی ہو سکتا تھا کہ عدالت اپنے سامنے اٹھائے گئے آئینی و قانونی سوالات کو ADJUDICATE کرنے سے بچنا چاہتی تھی ؟احالانکہ وہ آئین اور اپنے حلف کے تحت ااس کی پابند تھی ، خواہ آسمان ہی کیوں نہ گر پڑتے!
( د ) کیا معاشرے میں انتشار ( CHAOS)
١۔ قانون کی بے حسی ،
٢۔ قانون کی بے بسی اور لاچارگی ،
٣۔ قانون کی بے حرمتی اور پامالی ،
٤۔ قانون کے STATUTE BOOK میں گہری نیند سوئے رہنے اور میدان عمل میں نہ آنے ،
٥۔ قانون کے دہرے معیارات اور عدم یکسانیت ، قانون پر عدم عمل درآمد ،
٦۔ انصاف کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ کہ آسمان نہ گرپڑیں ،
٧۔ حکمرانوں ( RULERS) کے لئے مختلف قانون اور محکوموں ( RULED) کے لئے مختلف قانون ،
٨۔ قانون کی معمولی سی خلاف ورزی پر عامةالناس کا قانون کے شکنجے میں جکڑا جانا اور خواص ( آئینی
عہدیداروں ) کا قانون اور آئین کی صریح پامالی پر محفوظ و مصئون ( IMMUNE) ہونا ،
٩۔ دوران عہدہ CONSTITRUTIONAL OFFICE HOLDERS کا باوجود ارتکاب
جرائم ( مثلا ٢٩٥ سی کی صورت میں سب سے بڑے جرم کا ارتکاب ) اور خلاف ورزی اور پامالی
آئین کے باوجود HIGH TREASON ACT یا کسی دیگر قانون کی زد میں آنے سے
محفوظ ہونا، اور ، منجملہ دیگر ،
١٠۔ یکساں قانونی تحفظ کے فقدان ۔۔۔۔ سے پیدا نہیں ہوتا ؟
جواب : انتہائی ادب سے عرض ہے کہ یہ تمام SITUATIONS وہ ہیں جو ایک طرف تو کسی آئین کی موجودگی ( EXISTENCE and PRESENCE ) اور اس کے رو بعمل ( OPERATIVE ) ہونے کی نفی کرتی اور دوسری طرف براہ راست قران و سنت کے احکام اور منشا سے متصادم ہونے کے سبب معاشرے کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیتی ہیں۔اوپر بیان کی گئی تمام صورتیں LAWLESSNESS کی ہیں جن کا منطقی نتیجہ CHAOS ہے ۔ گھر میں یا خاندان میں، گھر یا خاندان کے بزرگ کا احترام نہ ہو ، اس کی ہدایات و احکام کی خلاف ورزی ہو ، اور محض اسی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کی ھدایات کا مذاق اڑایا جائے ، تمسخر و تضحیک کی جائے ۔۔۔ تو ۔۔۔ گھر اور خاندان کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے ، اسی پر قیاس فرمالیں کہ جس معاشرے یا ریاست میں نبی کریم ۖکی توہین کے معاملے کو معمولی سمجھ لیا جائے اور ان لوگوں کو سزا دینی شروع کردی جائے جو جرائت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موہنین ( CONTEMNORS) کو سبق سکھاتے ہیں ، تو معاشرہ یا ریاست کیسے باقی رہ سکتی ہے۔
( س) کیا ( توہین رسالت کے معاملے اور صورت میں ) قانون کو ھاتھ میں لینا ( جس کی نوبت ، انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاست کے چاروں ستونوں کی اجتماعی بے عملی یا ناکامی کی صورت میں آتی ہے ) اور قانون کو بطور DUTY ھاتھ میں لینا ( خواہ یہ ڈیوٹی ریاست کی طرف سے عائد ہوتی ہو یا دین کی طرف سے ) دونوں کے CONSEQUENCES ایک جیسے ہوں گے یا ہو سکتے ہیں ؟
جواب : انتہائی ادب سے عرض ہے کہ قانون کو ھاتھ میں لینا ایک انتہائی نا پسندیدہ اور قابل تعزیر فعل ہے ، لیکن اسی قدر ادب سے عرض ہے کہ توہین رسالت کی صورت میں قانون کو ھاتھ میں لینا اور قتل کرنا نہیں ، قانون کو ھاتھ میں نہ لینا اور قتل نہ کرنا جرم ہے ، کیوں ؟
اس لئے کہ : باعث تخلیق کاینات ۖ کے گستاخ سے دنیا کو پاک کر دینا حضور علیہ الصلواة والسلام کے ہر غلام کا اولیں فریضہ ہے ۔ اس کے لئے ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا انتظار کرنا اور ان کا سہارا لینا غیرت ایمانی کے منافی ہے ۔ اپنی جان اور مال کے تحفظ کی خاطر ایک شہری خود اقدام کر سکتا ہے ، اس کے لئے ضروری نہین کہ ریاستی مشینری کی قانونی کاروائی کا انتظار کرے۔ناموس رسالت ۖتو اپنی جان اور مال سے لاکھوں کروڑوں درجہ زیادہ عزیز ہے۔
لہٰذا اس کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری قرار دے کر اپنے ھاتھ باندھ لینا ایمان مستقیم اور عقل سلیم کے خلاف ہے ۔تاریخ اسلام کے ابتدائی دور کا بغور مطالعہ کرنے سے ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے حکومت کے اعلیٰ یا ادنیٰ افسر کے پاس جا کر یہ رپورٹ کی ہو کہ فلاں شخص نے میری موجودگی میں میرے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیۖکی شان میں گستاخی کی ہے لہٰذا آپ اس کے خلاف قانونی کاروائی کریں ، عہد رسالتۖ میں توہین رسالتۖ کے ارتکاب کی پانچ مثالیں ملتی ہیں ۔پانچوں مثالیں ایسی ہیں کہ جس کسی کے سامنے توہین رسالت ۖ کا ارتکاب ہوا اس نے خود ہی گستاخ رسولۖ کا کام تمام کیا اور بعد میں رسالت مآبۖ کے حضور اطلاع کی ۔صحیح نسائی شریف کتاب تحریم الدم باب الحکم فی من سب النبی ۖمیں ایک صحابی کا ذکر ہے، اس کی بیوی گستاخ رسول ۖتھی۔ایک دن اس نے توہین کا ارتکاب کیا تو انہوں نے اسے قتل کردیا اور حضورۖ کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ میری بیوی میرے دو بیٹوں کی ماں تھی ۔میری خدمت گزار تھی مگر آپ کی گستاخ تھی ۔اس نے میرے سامنے آپ کے خلاف بد زبانی کی ، جس پر میں نے اسے قتل کردیا ۔آۖ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ اس آدمی پہ میرا حق ہے اور اس نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔
نیز آ پۖنے فرمایا ، گواہ رہیو ، اس عورت کا خون ساقط ہے ۔اسی طرح حضرت خالد بن ولید نے ایک ایسی عورت کو قتل کردیا جو نبی کریم کو گالیاں دیتی تھی ۔ ایک صحابی نے اپنی گستاخ رسول بہن کو قتل کرکے حضورۖ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا قصہ سنایا تو آپۖ نے اس عورت کا خون ساقط کردیا ۔اسی طرح حضرت عمر بن خطاب نے اس شخص کو قتل کردیا جس نے حضورۖکی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا فیصلہ کروا یا اور اس کے بعد حضرت عمر کے پاس آکر حضور کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اپنے معاملے کا فیصلہ حضرت عمر سے کروانا چاہا ۔ ابو دائود شریف کتاب الحدود باب الحکم فی من سب النبیۖ میں حضرت علی سے روایت ہے کہ یہودی عورت حضور پاک ۖ کو گالیاں دیا کرتی تھی ، ایک صحابی نے گلہ گھونٹ کر اسے مار دیا ۔حضور ۖکو اس کی اطلاع ہوئی تو آپۖ نے اس کا خون ساقط قرار دیا۔ یہ بات قوم موسیٰ علیہ السلام کے خصائص میں سے ہے کہ مشکل وقت میں وہ کہ دیتے تھے کہ اے موسیٰ! آپ جانیں اور رب! یہ کام ہمارے بس سے باہر ہے ۔ اسی طرح یہ بات ہے کہ اپنی جان و مال کا تحفظ تو خود کریں اور بعد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع کردیں ، مگر رسول پاک ۖ کی عزت کے تحفظ کا معاملہ ہو تو پولیس کو رپورٹ کردیں اور بس ! پولیس جانے اور اس کا کام ! اس طرح عاشق رسول ۖ بھی کہلوالئے اور ممکنہ مشکل صور ت حال سے دو چار ہونے سے بھی بچ گئے ! وہ یہ کہ توہین رسالتۖ کے اصل قانون پر خود عمل درآمد کرنے کی صورت میں قتل کے الزام میں گرفتاری ہوتی ، مقدمہ چلتا ، موقف عدالت تسلیم کرلیتی تو بری ہو جاتے ، ورنہ غازی علم الدین کی طرح شہادت سے سرفراز ہوتے ۔ پاکستان میں رائج قانون توہین رسالت ۖ( یعنی تعزیرات پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ سی ) تو ملزموں کو تحفط فراہم کرتا ہے۔
اس طرح وہ حضور پاک ۖ کے غیرت مند غلاموں کے اقدام سے محفوظ ہو جاتے ہیں اور بالآخر شک کا فائدہ اٹھا کر عدالت سے بھی عموما بری ہونے کا اہتمام کر لیتے ہیں مجھے ٢٩٥ سی تعزیرات پاکستا ن پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس طرح توہین رسالتۖ کے قبیح فعل کو کئی ہندسوں سے ضرب دینا پڑتی ہے ۔پولیس کے ہاں رپورٹ درج کرانے والا توہین رسالت ۖپر مبنی ناقابل بیان الفاظ کو دہرائے گا ۔ پھر پولیس محرر ان الفاظ کو دہرائے گا ۔ پھر پولیس کا تفتیشی افسر اپنی تفتیش میں ضمنیاں لکھتے وقت اور گواہوں کے بیانات زیر دفعہ ١٦١ ضابطہ فوجداری لکھتے وقت اور چالان کی آخری رپورٹ مرتب کرتے وقت توہین آمیز الفاظ دہرائے گا ۔ اس کے بعد عدالت اپنی کاروائی کے دوران گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرتے وقت اور ملزم پر چارج فریم کرتے ہوئے ، غرض بے شمار مرتبہ توہین رسالتۖ پر مبنی الفاظ کی گردان ہوگی ۔ یہ صورت حال کسی بھی صاحب ایمان حضور پاک ۖ کے کلمہ گو کے لئے قابل برداشت نہیں ہو سکتی ، خصوصا جبکہ نتیجہ بھی غیر یقینی ہو۔
توہین رسالتۖ کے قانون پہ سیخ پا ہونے والے وہ لوگ ہیں جو بنی نوع انسان کے عظیم محسنوں یعنی اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کے خلاف بغض رکھتے ہیں اور ان کی بے ادبی اور گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔اس لئے وہ توہین رسالت ۖ کے قبیح اور گھنائونے فعل کے مجرموں کے ساتھ ہمدردی کے جوش میں احترام انسانیت اور احترام قانون جیسی اعلیٰ اقدار کو بھی پامال کردیتے ہیں ۔ جب ایک عام آدمی کی توہین قانونا جرم ہے تو کیا مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے دل و جان سے عزیز پیغمبر کی تو ہین کو سنگین جرم قرار دیں !( سفحات ٣٤٤ تا ٣٤٦ از شہیدان ناموس رسالت از محمد متین خالد شائع کردہ علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں یہ عر ض کرنا بھی ضروری ہے کہ ۔۔۔۔دل میں نبی آخرالزمان ۖ کی محبت و عقیدت نہ ہونا بھی ایک طرح سے بے ادبی ہے ۔گستاخی کرنا یا گستاخ کے لئے نرم گوشہ رکھنا ، گناہ کبیرہ ہے اور اس کو ٹھکانے نہ لگانا ایک ناقابل عفو جرم !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی شخص نے شہنشاہ عرب و عجم ۖکے عہد مبارک میںتوہین کی اور آپۖ نے اسے معاف فرمادیا تو یہ حسن خلق اور وصف رحمةالعالمینۖ تھا ، لیکن امت میں سے کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں۔
حضور اکرم ۖ ہی اپنا حق معاف فرما سکتے ہیں ۔اگر امتی کسی بد زبان کو نظرانداز کردیتے ہیں تو یہ حسن خلق نہیں ، بلکہ بے حمیتی و بے غیرتی ہوگی ۔۔( صفحہ ٣٦اللہ اور رسول کے شہید از رائے محمد کمال )۔۔۔۔ خود کشی تعزیرات پاکستان کے تحت جرم ہے لیکن وطن عزیز کی سا لمیت کے تحفظ کی خاطر ، اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ جانا اور جان قربان کردینا شہادت ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے انہیں تمغہ ھائے جرائت سے نوازا جاتا ہے ! اسی طرح قانون کراچی کی ٹارگٹ کلنگ اور سوات و وزیرستان آپریشن کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح کسی کو مشتعل ہو کر ، غیرت کے نام پہ یا کسی دیگر وجہ سے ناحق قتل کردینا۔۔۔ اور ۔۔۔ ناموس رسالت کا تحفظ کرتے ہوئے کسی مرتد کے قتل پہ ایک جیسے احکام لاگونہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ۖ نے ایسے قتل کو IN ACCORDANCE WITH LAW ( حق ) اورخون کو جائز قرار دیا ہے۔
( ط ) پاکستان کی عدالت عظمیٰ اور عدالت ھائے عالیہ کے چیف جسٹس صاحبان اور جج صاحبان آئین کے آرٹیکل ١٧٨ اور ١٩٤ کے تحت اپنے منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے حلف کی ابتدا میں یہ کہتے ہیں : میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں ۔۔۔ اور اس کا اختتام ، اس دعا پہ ہوتا ہے کہ ۔۔۔اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے ( آمین ) ۔۔۔۔۔ کیا یہ الفاظ محض رسمی (FORMAL) اور نمائشی ( DECORATIVE ) ہیں ؟ اور فیصلے صادر کرتے ہوئے ان کا کوئی OVER RIDING EFFECT نہیں ہوتا ؟ کیا جج صاحبان فیصلہ فرماتے وقت اللہ تعالیٰ کی اس رہنمائی کو نظر انداز فرما سکتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں ، ظالم ہیں ، فاسق ہیں ؟ اس صورت حال میں آئین کی ایسی دفعات یا شقیں یا کوئی قانون ، جو براہ راست اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون یا احکام سے متضاد اور متصادم ہو ، اس پر عمل درآمد ہو سکتا ہے ؟ اور اگر بالفرض اور خدا نخواستہ اس پر عمل درآمد ہو تو کیا یہ منصبی حلف کی خلاف ورزی نہیں ہوگی ، بالخصوص اس صورت میں کہ حلف میں اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرنے کی دعا ، بعد میں ایک ترمیم کے ذریعے بطور خاص شامل کی گئی تھی۔
جواب : درخواست گزار ادب سے عرض کرتا ہے کہ اگر جج صاحبان کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پہ یقین کامل ہو تو آئین کی بظاہر متضاد یا مزاحم دفعہ یا شق یا کوئی قانون ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتا اور وہ ا سے STRIKE DOWN اور IGNORE کرسکتے ہیں ۔
( ع ) اگر توہین رسالت ۖ کا ارتکاب آئینی عہدیداروں کی طرف سے ہو جنہیں آرٹیکل ٢٤٨ کے تحت آئین ، تحفظ فراہم کرتا ہے تو کیا تعزیرات پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ سی منہ دیکھتی رہ جائے گی ؟
جواب :تعزیرات پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ سی کے سامنے نہ تو آئین کی اور نہ ہی قوانین کی کوئی حیثیت ہے اگر خدا نخواستہ آئین اور قوانین اس پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہوتے ہیں تو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ مسلمان عوام کے لئے نہ آئین واجب الاحترام رہتا ہے اور نہ ہی قوا نین ! کیونکہ ان کا آئین وہ ہے جس کی ضمانت آرٹیکل 20 میں دی گئی ہے۔
G R O U N D S :
١۔ یہ کہ ماتحت عدالت عالیہ کے سامنے محض اور محض ، یہ نکتہ اور سوال اٹھایا گیا تھا کہ تحفظ ناموس رسالتۖ کی خاطر ، کسی مسلمان کا کسی کو قتل کردینا نہ تو قانون کو ہاتھ میں لینا ہے اور نہ ہی کوئی جرم ہے جس پر پولیس دست اندازی کرے اور ایسا کرنے والے کو گرفتار کرے ، بلکہ ایک ایسا فرض ے جس کی عدم ادائیگی ( جو اگر اس کے اختیار اور بس میں ہو ) اسے گنہگار اور دانستہ ایسا کرنے کی صورت میں ا سے بھی حمایتی ہونیکے سبب شاتم بنا دیتی ہے ، اور توہین کرنے والے کو کیفر کردار تک پہنچانا رسول ۖ کے حق کی ادائیگی ہے ، ایک ایسے فرض کی ادائیگی ہے جو ہر با غیرت مسلمان پر عائد ہوتا ہے اور ایسا کرنا قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں بلکہ قانون اور قانون دینے والے کی عزت کا تحفظ ہے۔
٢۔ اس معاملے میں قانون کوہاتھ میں نہ لینا ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔۔۔ قانون کوہاتھ میں لینا اور قتل کرنا نہیں ، قانون کو ھاتھ میں نہ لینا اور قتل نہ کرنا جرم ہے ۔۔۔۔عدالت کے سامنے یہ سوال ہرگز نہیں تھا کہ شاتم رسول ۖکی قانون میں سزا کیا ہے ؟ عدالت کو انتہائی تفصیل سے یہ بتایا گیا تھا کہ سلمان تاثیر کا جرم، اصرار اور انکار کی صورت میں ثابت شدہ تھا کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ۖ کے قانون کو ( جس کا نفاذ ضیاء الحق
کا کوئی کارنامہ نہیں بلکہ فیڈرل شریعت کورٹ کا کارنامہ ہے جس کا کریڈٹ بہر حال جناب اسماعیل قریشی سینیئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کو جاتا ہے ) بالصراحت کالا قانون اور مقرر کردہ سزا کو سخت اور ظالمانہ کہا تھا ۔۔۔ اور اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا تھا۔
بلکہ آئینی تحفط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات سے مسلسل اور بدستور کھیل رہا تھا حالانکہ بظاہر اس آئینی تحفظ کے باوجود ، عدالت اپنا اختیار استعمال کرکے اس کے خلاف کاروائی کرسکتی تھی لیکن مملکت اسلامیہ پاکستان کی کسی بھی عدالت نے از خود کاروائی نہ کی ۔ملک ممتاز حسین قادری نے جو کچھ کیا وہی ہر باغیرت مسلمان کو کرنا چاہئے تھا ، یہ نہ تو ناحق قتل کرنے اور نہ ہی قانون کو ھاتھ میں لینے کے مترادف ہے ۔ مذکورہ بالا گزارشات کی روشنی میں عرض ہے کہ ایس ایچ او نے ملک ممتاز قادری کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ، اسے گرفتار کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز ہی نہیں ، ٢٩٥ ۔سی ت پ کا ارتکاب کیا۔ ان حالات میں استدعا ھے کہ یہ درخواست برائے اجازت اپیل منظور فرمائی جاوے ، ماتحت عدالت عالیہ کے سنگل اور ڈویژن بنچ کے احکام کالعدم قرار دئے جائیں ۔۔۔ مسئول الیہ کی کاروائی کو غیر قانونی و غیر آئینی اور بدون اختیار قرار دیا جائے ، اور اس دوران راجہ اخلاق حسین سپیشل جج عدالت انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ٢ میں ملک ممتاز قادری کے خلاف ہونے والی کاروائی کو روکا جائے اور اسے تا فیصلہ درخواست ہذا شخصی ضمانت پہ رھا کرنے کا حکم صادر فرمایا جاوے۔
تحریر : ظفر اعوان ایڈووکیٹ