18 ستمبر 2016ء کی صبح لائن آف کنٹرول کے قریب مقبوضہ کشمیر کے علاقہ اُڑی میں حملے نے جنوبی ایشیاء کی سیاست میں بهونچال پیدا کردیا. حملہ کے فوری بعد عادت سے مجبور بهارتی سرکار نے بلا ثبوت حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کردی۔ بس یہ الزام لگنے کی دیر تھی کہ حکومت کی خاموش سرپرستی میں انتہا پسند ہندو تنظیموں نے پاکستان پر حملے کا تقاضا کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں موجود مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا۔
ان حالات میں بهارتی سرزمین کے لیے اب کسی کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ حق اور سچ کی آواز بلند کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس تنگ ماحول میں پاکستانی فنکاروں کے بهارتی حامی بهی پیچهے ہٹ گئے اور کئی ایک نے تو اپنے الفاظ تک واپس لے لیے۔ بهارتی فنکاروں کے اس اقدام کے پیچهے انتہا پسند ہندو تنظیموں کا دباو واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ لیکن میری ذاتی رائے میں اگر وہ فنکار اپنے ملک کے دفاع کے لیے آگے آئے تو انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا بلکہ اپنا فرض نبھایا ہے۔
لیکن بدقسمتی ایسی کہ ایسی محبت ہمارے کسی بھی فنکار میں دیکھنے کو نہیں ملی جو اِس وقت بھارت میں کام کررہا تھا۔ مانا کہ جنگ کی صورت میں فتح یا شکست کا بالی ووڈ میں پاکستانی فنکاروں کے کام کرنے یا نہ کرنے سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی اس کا کشمیر کی آزادی سے براه راست کوئی واسطہ ہے مگر موجودہ صورتحال میں جب بهارتی اداکار و سینما مالکان و ایسوسی ایشنز اپنی فوج و حکومت کے ساتھ کهڑے ہیں تو پاکستانی فنکار ایسا کیوں نہیں کرتے؟ ماہرہ خان، سجل علی، فواد افضل خان، علی عباس، علی ظفر، عدنان صدیقی و دیگر کیوں یہ اعلان نہیں کرتے کہ
- وہ بهارتی فلموں میں کام نہیں کریں گے۔
- وہ کشمیر پر ناجائز طور پر قابض اور ظالم بهارت کی فلموں میں کام نہیں کریں گے۔
- وہ اپنی فوج اور کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔
- وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت و آزادی کے حامی ہیں۔
- جس ملک کے غنڈے انہیں اور اُن کے حمایتیوں کو ڈرا رہے اور حکومت خاموشی سے انہیں یہ سب کرنے دے رہی ہے، ہم ایسے ملک اور اسکی انڈسٹری پر لعنت بهیجتے ہیں، ہم یہ تحقیر و تذلیل برداشت نہیں کریں گے.
لیکن اُن کی خاموشی ایسے ہی ہے جیسے ایک دروازے پر بهکاری مانگنے کے لیے کهڑا ہو، گهر کے اندر سے آواز آتی ہو کہ بهیک نہیں دی جائے گی، دفعان ہوجاو یہاں سے اور بهکاری یہ نہ کہے کہ میں اس در سے بهیک مانگتا ہی نہیں، اپنے گهر میں روکهی سوکهی کها کر گزارا کرلوں گا بلکہ خاموشی سے کهڑا رہے کہ کبهی تو حالات بدلیں گے، گهر کے مالک کا دل پسیجے گا اور بهیک کا جو سلسلہ چل رہا ہے وہ پهر سے جاری ہوسکے گا۔
ان فنکاروں کی منافقت عیاں ہوچکی ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ پاکستانی ہونے کے باوجود خود کو ایک محب وطن شہری اور پاکستان کے ثقافتی سفیر کے طور پر پیش نہیں کرسکے۔ اس کے بجائے ایک بڑی فلم انڈسٹری کے ذریعے خود کو لازوال بنانے کی ناکام کوشش ان کی پہلی ترجیح ہے۔
ہمارے ایسے فنکاروں سے تو کہیں زیادہ بہتر عدنان سمیع خان ہیں جنہوں نے منافقت کرنے کے بجائے پاکستان کی شہریت چھوڑ کر بھارتی شہریت حاصل کرلی اور پھر پاکستان میں نام نہاد سرجیکل اسٹرائیکس پر اپنی فوج کو مبارکباد دے کر بهارتی شہریت کا حق ادا کردیا۔ اِس لیے میری اپنے پاکستان فنکاروں سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی پاکستان کی محبت کا ڈرامہ نہ کیجیے، یہ منافقت نہیں کیجیے کہ آپ محبت تو پاکستان سے کرتے ہیں اور کام کے لیے بھیک مانگنے بھارتی سرزمین پر جارہے ہیں۔ یہ یاد رکھیے کہ آپ جو کچھ ہیں پاکستان کی وجہ سے ہے، اگر آپ کے پاکستان کو کوئی گالی دے تو یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اُس سے کام مانگنے کے بجائے اُس سے نفرت کریں۔ اگر یہ کام نہیں ہوسکتا تو پھر مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ بهارتی قونصل خانے میں شہریت کی درخواست داخل دفتر کروا دیجیے لیکن کم از کم منافقت لبادہ اتاردیجیے