تحریر : کوثر ناز
کسی بھی شے کی تشہیر کو اشتہار کا نام دیا جاتا ہیاگر یوں کہوں کہ آج کل زمانہ ہی اشتہارات کا ہے تو غلط نہ ہوگا اشتہار ٹی وی پر ہو یا بل بورڈز پر ہر شے کی بہت عمدگی سے نمائندگی کرتے ہیں کہ تشہیر کے بنا تو کسی بھی آئٹم کو لوگوں کی نظروں میں نہیں لایا جا سکتا نہ ہی کوئی فائدہ کمایا جا سکتا ہے زمانہ جدید میں ہر شے کی تشہیر لازم و ملزوم ہوگئی ہے کہ دور حاضرپہلے کارآمد اشیائ دیکھتا ہے پھر خریدتا ہے ، آنکھیں بند کرکے یا صرف بھروسے کی بنیاد پر کوئی کام کرنا بیوقوفی گردانا جاتا ہے سو ان اشتہارات میں سہولیات و قیمتوں کے علاوہ گارنٹی کی میعاد بھی بتا دی جاتی ہے تاکہ لوگ کم وقت میں بہترین اور معیاری اشیائ خرید لیں۔
لیکن ایسا بھی ممکن نہیں کہ ہر بار شے کی حقیقت ہی بتائی جائے یہاں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اونچی دکانون میں پھیکے پکوان رکھتے ہیں اور بہت عمدگی سے اپنی دس کی چیز کو سو کی بنا کر بیچتے ہیں مگر میرا اختلاف ان میں سے کسی شے پر بھی نہیں ہے بلکہ اختلاف تو اشتہار کے نام پر شارٹ فلمز بنانے پرہے کہ جو اشتہار کم کوئی فلم ذیادہ لگ رہی ہوتی ہے اگر کسی صابن کا اشتہاربھی دینا ہے تو کہیں لانگ ڈرائیو کے لیئے دیری ہوتی دکھائی جا رہی ہوتی ہے تو کہیں صابن کی مہک اس قدر عمدہ ہوتی ہے کہ فرضی بیگم کے شوہر نامدار ان کی سمت کھنچے چلے آتے ہیں جبکہ حقیقت میں انکا معیار صفر ہوتا ہے اور جسکا ہوتا بھی ہے تو اس میں اتنی کشش تو ہر گز نہیں ہوتی کہ اچگے خاسے بندے کع کھینچ لے۔
اشتہار گھر کا ہو یا گھی کا، پتی کا ہو پنکھے کا ہر اشتہار میں ناچنا گانا اور ساس بہو کی سازش لازم وملزوم ہوگئی ہے شاید کے اس کے بغیر انکی کوئی شے بکتی ہی نہیں ویسے ہماری قوم کس قدر ایڈوانس ہے ہر چیز ناچ کے بیچتی ہے اور جن کے پاس کھانے کو نہ ہو وہ بھی ایسے اشہارات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور بڑے چھوٹے کا فرق کیئے دیکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور کبھی کبھی تونیوز دیکھتے ہوئے ایسے اشتہار بھی آتے ہیں کہ ہم جیسے گھرانوں کے لوگ یا تو چینل بدل دیتے ہیں یا بڑوں کے سامنے سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
ٹی وی تو ٹی وی ہائی ویز پر لگے اشتہارات بھی کچھ کم نہیں ہوتے ہیں مہنگی برانڈ کے ملبوسات میں خواتین نمائش سرعام کرکے خوب پیسے کمارہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف فون بیچنا ہو یا سمز کی تشہیر کے لیئے دشمن ملک کی اداکاراؤں کی مانگ دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے جو کہ اکثر برانڈز کی نمائندگی کرتے ہوئے برانڈ کے بھی انڈین ہونے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ ہم موبائل فون کا اشتہار نہیں انڈیا کی کسی فلم کا ائٹم نمبر دیکھ رہے ہیں کیونکہ لباس بھی اس قدر قابلِ اعتراض ہوتا ہے کہ مسلم ملک ہونے کی حیثیت سے قطعی مناسب نہیں لگتے ہوں تو پاکستانی اداکارؤن کے جلوے بھہ کسی طور کم نہیں۔ پیسے کمانے کی دوڑ میں اندھے ہوئے لوگ صحیح اور غلط میں تفریق کرنا ہی بھول گئے ہیں ہر کام اندھا دھند کیئے جاتے ہیں اور ہم بھی آنکھیں کھولے دیکھے جاتے ہیں کیا اشتہارات آپکے بچوں کو نہیں بگاڑتے؟ صرف فلمیں ہی یہ کام کرتی ہیں۔
حیرت ہی کہ ہم تشہیر کے نام پر فحاشی کیوں پھیلا رہے ہیں؟ کیوں اپنے اسلامی و معاشرتی اقداروں کو بھول رہے ہیں؟ کیوں بھول رہے ہیں کہ اگر اشیائ حقیقتاً کارآمد ہیں تو انکی تشہیر سادگی سے کیوں ممکن نہیں کہتے ہیں ناں کی معیاری شے کا نام کافی ہوتا ہے تو پھر آج کل بے حیائی وفحاشی کو فروغ دینے کے نام کیوں معیاری اشیائ کی تشہیر رکھ دیا گیا ہے ضرورت ہے سعچنے کی اور سوچ کر مثبت قدم اٹھانے کی۔
کیونکہ بڑوں کو تو کسی حد تک علم بھی ہوتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا مگرجب ہم اپنے بچوں کو ان اشہارات پر انکے ساتھ دیکھتے ہیں تو ہمارے لیئے یہ خوشی کا نہیں فکر کا باعث ہونا چاہیئے کہ جو چیز بچوں کے اذہان میں ابتدا سے گھر کر جائے اسکے اثرات دیر پا ثابت ہوتے ہیں اور انکا اسلامی معاشرے میں پروان چھڑنا بھی مناسب نہیں کیونکہ پھر آپ ہی کو انکی ضرورت پڑنی ہے۔
تحریر : کوثر ناز