counter easy hit

اشتہارات اشتہاریوں کے حوالے

Punjab government

Punjab government

تحریر: روہیل اکبر
ملک میں کرپشن کرنے والوں اور انکے حواریوں کی لوٹ مار انتہا ء کو پہنچ چکی ہے اور یہ سب کچھ حکومت کی چھتری کے نیچے ہورہا ہے کروڑوں اور اربوں کی کرپشن میں ملوث سرکاری اہلکار نہ صرف اپنے سے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں بلکہ نیک نیتی اور ایمانداری سے کام کرنے والے افسران کی راہ میں روڑے بھی اٹکا رہے ہیں پنجاب میں اس وقت خادم اعلی کی ناک کے نیچے اور ہر وقت اسکے ارد گرد خوش آمد کے ماہر افسران نے نہ صرف لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے بلکہ اپنے عہدوں سے بڑھ کراعلی انتظامی عہدوں پربھی قبضہ جما رکھا ہے اور ان جونیئر افسران کی لوٹ مار سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پنجاب حکومت کرپشن اور کرپٹ افسران کی ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن چکی ہے۔

اس سلسلہ میں صرف ایک محکمہ کی کرپشن رپورٹ پر لکھوں گا باقی محکموں کا پڑھنے والے خود اندازہ لگا لیں کہ کتی چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے یا رہزانوں نے راہبروں کا بھیس بدلا ہوا ہے مگر سب سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ الفاظ بھی یاد رکھنے چاہیے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام ہوگا کہ ہمارے حکمران کیسے تھے جن کے دور میں اربوں روپے لوٹنے والے معزز تھے جبکہ بیروزگاری اوربھوک کے ہاتھوں ستائے ہوئے روٹی چور کو جیل میں ذلیل وخوار کیا جاتا رہا۔

18 جنوری بروز پیر سپریم کورٹ میں چکوال کے پٹواری کی بدعنوانی اور ساتھی ملزمان کی ضمانت کے مقدمے میں 3رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ نیب میں برطرف افسران تاحال موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں ، 10 کروڑ روپے کی کرپشن میں ملوث ملزمان کو ایک کروڑ روپے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے وہی ملزم اگلی بار 20 کروڑ روپے کی بدعنوانی کرتا ہے جبکہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے آزاد پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔یہ سپریم کورٹ کا کرپشن پر اظہار تشویش ہے جبکہ اسی طرح کی بہت سی اور مثالیں بھی موجود ہیں مگر اس وقت وزیراعلی پنجاب کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے خوش آمدی افسران نے جو کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

Corruption

Corruption

اسکی مثال بھی ماضی میں نہیں ملے گی صرف ایک محکمے کی مثال اس لیے دے رہا ہوں کہ پوری دیگ میں سے چند چاول چکھنے سے پوری دیگ کا اندازہ ہوجاتا ہے اور اس وقت جس محکمے کی میں بات کررہا ہوں اسکے محکمے کا سربراہ ہروقت وزیراعلی پنجاب کے اردگرد انکی خوش آمد کرتا ہی نظر آئے گاانکا محکمہ اطلاعات اور موصوف انکے ڈائریکٹر جنرل بنے ہوئے ہیں جن کا نام راجہ جہانگیر انور ہے جو گریڈ 18ویں میں ہونے کے باوجود 20ویں گریڈ کی 2 سیٹوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور انکے نیچے شعبہ اشتہارات میں کام کرنے والے تقریبا تمام افسران انٹی کرپشن کے اشتہاری ہیں جن میں سے کچھ نے ضمانت کروا رکھی ہے اور کچھ نے صرف پیسے کے زور پر کام چلا رکھا ہے جبکہ اس محکمے کا سیکریٹری بھی انوکھی، نرالی اور لاڈلی طبیعت کا مالک ہے۔

خود تو موصوف کسی اور کام میں ہی مصروف رہتے ہیں اور انکے نیچے خوش آمدکرنے کا ماہر فیاض جو مشین آپریٹر تھا اور اب پی اے بنا بیٹھا ہے وہی قائم مقام سیکریٹری کہلاتا ہے اور اکثر اخبار ات کے اشتہارات اپنے فون سے جاری کرواتا ہے اسی طرح ڈی جی پی آر کے دفتر میں گریڈ 17کے انفارمیشن آفیسر اشتیاق امین جو کہ گریڈ 18کے ڈی جی پی آر کے پی ایس او کہلاتے ہیں وہ اپنے مخصوص اخبارات اورچینلزکے لیے اشتہارات جاری کرنے کا حکم جاری کرتا ہے اور ڈی جی پی آر نے اپنی کمال مہربانی سے اسے گریڈ 19کے ڈائریکٹر ضمیر اطہر کو بے دخل کرکے اسکا کمرہ دے رکھا ہے جہاں وہ خواتین کے ساتھ خصوصی میٹنگ بھی کرتا ہے۔

اس وقت محکمہ ڈی جی پی آر کے شعبہ اشتہارات میں اوپر سے لیکر نیچے تک محکمہ انٹی کرپشن کو کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث ملزمان مطلوب ہیں جبکہ مزے کی بات یہ ہے کہ شعبہ اشتہارات کا جو انچارج ہے وہ ابھی بھی انٹی کرپشن کو کروڑوں روپے کی کرپشن میں مطلوب ہے اس موقعہ پر اگر یہ کہا جائے تو ایک حقیقت ہوگا کہ پنجاب حکومت نے شعبہ اشتہارات اشتہاریوں کے حوالے کررکھا ہے وہ کیسے اسکی تفصیل بھی ملاحظہ فرمالیں۔

پنجاب حکومت میں ایک انتہائی ایماندار،محنتی اور مخلص شخص محی الدین وانی سیکریٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے جنکے دور میں محکمہ اطلاعت واقعی اپنے عروج پر تھا جنہوں نے ڈی جی پی آر میں کروڑوں کی کرپشن دیکھی تو اسی وقت بلا کسی خوف خطر انٹی کرپشن میں سابق ڈی جی پی آراور وزیراعلی پنجاب کے موجودہ پریس سیکریٹری شعیب بن عزیز،سابق ڈی جی پی آر فرخ محمود شاہ ، ڈائریکٹر اشتہارات مجید شاہد ،موجودہ ڈائریکٹر ایڈمن اور انچارج ڈائریکٹر اشتہارات ارشد سعید ،موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر علی طاہر ،موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد جاوید ،ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل الرحمن سمیت میڈاس ایڈورٹائزنگ کے سی ای او انعام اکبر کے خلاف مقدمہ نمبر 53/12بجرم 409/420,468/471,55/2/47کے تحت مقدمہ درج کروادی۔

Shehbaz Sharif

Shehbaz Sharif

ا جسکے کے بعد یہ ملزمان انٹی کرپشن سے اشتہاری ہوگئے مگر ساتھ ہی وزیراعلی پنجاب کو بھی جھپا ڈالے رکھا تاکہ حکومتی چھتری تلے ذبح ہونے سے بچا جاسکے اسی دوران ان اشتہاریوں نے کرپشن اور کرپٹ افراد کے خلاف جہاد کرنے والے محی الدین وانی کے خلاف ایک مذموم حرکت بھی کرواڈالی مگر اللہ تعالی کی مہربانی سے یہ فراڈیے اپنی اس حرکت میں کامیاب نہ ہوسکے مگر وانی صاحب کو پنجاب میں پھر انہوں نے ٹکنے نہیں دیا۔انہی کرپٹ مافیا کے خلاف تھانہ قلعہ گوجر سنگھ میں بھی ایک کرپشن کا مقدمہ 407/09 درج ہے اب ان لوٹ مار کرنے والوں کا کیس پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں بھی زیر بحث ہے مگر اندرونی زرائع بتا رہے کہ کہ کمیٹی کے چیئرمین محمود الرشید کا تعلق جماعت اسلامی سے رہا ہے اور اسی طرح شعیب بن عزیز بھی پرانے جماعت اسلامی کے ساتھی ہیں موجودہ ڈی جی پی آر بھی پرانے جماعت اسلامی کے کارکن ہیں سابقہ ڈی جی پی آر اور وزیراعلی پنجاب کے پی آر او اطہر علی خان بھی پنجاب یونیورسٹی سے جماعت اسلامی سے منسلک ہیں اور سب مل کر اپنے آپ کو کرپشن کے الزامات سے بری کروالیں گے۔

اسلامی جمیعت طلبہ کے سابقہ عہدیدار ڈی جی پی آر جہانگیر انور اپنی سابقہ جماعت سے تعلق رکھنے والے افسران اور اہلکاروں کو نہ صرف پرکشش پوسٹنگ دے رہے ہیں بلکہ انہیں بھر پور تحفظ بھی فراہم کیا جارہا ہے مثلا الیکٹرونک میڈیا کی کروڑو روپے کی مبینہ غبن میں ملوث عارف چوہدری کو فیصل آبادتبادلے کے باوجود لاہور میں تمام مراعات کے ہمراہ رکھا ہوا ہے ،اسی طرح گوہر عزیز جو کہ بہت ہی جونیئر افسر ہے اسے حمزہ شہبازشریف کے ساتھ پی آر او لگا کر ڈائریکٹر فلمز کا بھی اضافی چارج دے رکھا ہے۔

اس سے موجودہ ڈی جی پی آر کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ سیکریٹری اطلاعات مومن علی آغااور ڈی جی پی آر نے ملکر اس وقت محکمہ اطلاعت کو اشتہاریوں کے حوالے کرکے خادم اعلی پنجاب جناب میاں شہباز شریف کو بدنام کرنے کا پروگرام بنا رکھاوزیراعلی پنجاب کو کس کس نے اور کس طرح اپنے جال میں پھنسا رکھا ہے جگہ کی کمی کے باعث یہ تفصیل اگلی بار لکھوں گا تاہم موجودہ تحریروزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور بلخصوص مسلم لیگ ن کے لیے بلعموم لمحہ فکریہ ہے کہ کیا انکی جماعت میں ایسا کوئی ایماندار ،محنتی اور قابل فرد نہیں ہے جسے ڈی جی پی آر کی ذمہ داریاں سونپی جا سکیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03466444144