تحریر: سائرہ ظفر
بڑے سالوں کی بات ہے 24 آدمی جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔اچانک زور دار بارش شروع ہوگئی۔بارش ایسی کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔آدمی نزدیک ہی ایک بڑے کمرے میں بیٹھ کر بارش کے رُکنے کا انتظار کرنے لگے۔اتنے میں بجلی چمکنے لگی اور بجلی کی گھن گرج کمرے کی چھت سے ہو کر واپس چلی جاتی۔ آہستہ آہستہ بجلی کی چمک میں تیزی ہو گئی تقریبا ایک گھنٹے تک ایسا ماجرا ہوتا رہا۔اس سارے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئےسب نے مشورہ کیا کہ ہو سکتا ہے ہم میں سے کسی ایک پر آسمانی بجلی پڑناچا ہ رہی ہو لیکن کمرہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے بجلی کو اپنی سمت کا تعین کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔آخر کار سب اس فیصلے پر متفق ہوئے کہ ہم سب باری باری باہر کھلی فضا میں جاتے ہیں جس کی جان بجلی نے لینی ہوئی وہ لے لے گی ۔تاکہ 23 آدمی تو آرام سے اپنا کام کرتے رہیں ۔ سب آدمی باری باری گئے اور واپس بچ کر آگئے۔
آخر میں 24واں آدمی رہ گیا باقی سب کو یہ لگا یہی وہ آدمی ہے جس کوبجلی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہے۔۔لیکن وہ آدمی باہر جانے کو ہر گز تیار نہیں تھا۔سب آدمیوں نے مل کر اسکو باہر پھینکا اور کہا تمھاری وجہ سے ہم سب پریشان ہورہے ہیں۔اتنے میں آسمانی بجلی زور سے پڑی اور اور کمرے کے اندر 23 آدمی جل کر راکھ ہو گئے۔اور 24واں آدمی بچ گیا۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔سردیوں میں گیس اور گرمیوں میں بجلی غائب دہشت گرد چن چن کر معصوم بچوں کونشانہ بنارہے ہیں ۔
عورت کے تحفظ کے قانون کو ہم بطور مسلمان یورپ کے قانون کا نام دیتے ہیں۔عام آدمی کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔حکومت ٹیکس لگائے جا رہی ہے مگر ہم میشنوں کی طرح کام کر کے دے رہے ہیں۔درس گاہوں میں بچوں کو دہشت گردی کی تعلیم دے رہے ہیں۔انصاف اور حق پر بولنے والے کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔عورت کو کھلے عام بے حرمتی کا نشانہ بنایہ جاتی ہے۔نبی ﷺ کے نام پر سیاست کرتے ہیں ۔کہتے تو خود کود عاشقان رسول ہیں لیکن کام عالم اور مولوی بن کر وہ کرتے ہیں جن سے آپ ﷺ نے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اُن کو کبیرہ گناہ کا درجہ دیا ہے۔
ان سب کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں اُن 23 آدمیوں کی طرح ہم سب قصور حکومت پر ڈال لیتے ہیں ۔لیکن ان نمائندوں کو یہاں تک کون لایا یہ ہم اس لیے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں چند گنے چنے لوگوں نے ہی سیاست کرنی ہے 24ویں آدمی جس نے اپنی محنت سے اور سچے دل سے عوام کی خدمت کرنی ہوتی ہے۔اُس کو پھینک دیتے ہیں اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بار بار ان قصور واروں اور مال ہڑپ کرنے والوں کو اقتدار پر بیٹھا لیتے ہیں جو 23 آدمیوں کی طرح خود تو جل کر راکھ ہوتے ہیں لیکن ساتھ اُن عوام کو بھی کر دیتے ہیں جنہوں نے 24ویں آدمی کی طرح کچھ نہیں کیا ہوتا ہےبے قصور ہوتا ہے۔
تحریر: سائرہ ظفر