counter easy hit

نواز شریف کی صاحبزادی کے کام کا مشورہ

Advice the work of Nawaz Sharif's counterpart

لاہور (ویب ڈیسک) مریم نواز نے احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو لیک کرکے یقیناً بہت بڑا جرم کیا ہوگا، اس جرم کو ن لیگ ’’شہزادی کا کھڑاک‘‘ قرار دے رہی ہے، ایک ایسا کھڑاک جو کسی گنڈاسے سے نہیں الیکٹرونک آلات کی مدد سے کیا گیا ،جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی، نامور کالم نگار خاور نعیم ہاشمی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ انتقام کا کھڑاک بھی ہے، نواز شریف کی بیٹی کی جارحانہ مزاحمتی سیاست نے ایوانوں کے ایوان ہلا کر رکھ دیے ہیں، لیکن پہلا اور آخری سوال یہ ہے کہ اس ’’عظیم ثبوت‘‘ کو مریم نواز اعلی عدالتوں کے سامنے لے کر کیوں نہ گئیں؟احتساب عدالت کے جج کی وضاحت کو عمومی طور پر ان کا اعتراف تصور کیا گیا ہے، بین السطور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ نواز خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت اور فیصلوں کے دوران جج صاحب نواز فیملی سے اپنے نادیدہ مگر حقائق پر مبنی تعلقات کو کسی حد تک نبھاتے رہے ، وہ اپنے وضاحتی بیان میں ویڈیو لیک کے حوالے سے قوم کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے، مریم نواز کے خلاف وڈیو لیک کے بعد نیا کیس کھولنا نیب کی بد نیتی قرار دیا جا رہا ہے، میرے دماغ میں تو خیال یہ آرہا ہے کہ کہیں یہ سب کچھ جج صاحب نے ن لیگ کی ملی بھگت سے تو نہیں کیا؟ کیا وہ کسی’’معاملے‘‘ میں ناصر بٹ کے ہاتھوں بلیک میل تو نہیں ہوئے، جج انسان ہوتے ہیں، ان سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں، انہیں بھی اپنی غلطیوں کی قیمت چکانا پڑتی ہے، یہ بھی یاد رکھا جانا چاہئیے کہ ناصر بٹ کا نواز شریف فیملی سے محض دوستانہ نہیں وہ اس خاندان کے ایک فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا مجرمانہ ماضی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں تو احتساب جج کے سامنے نہاں کیوں نہیں ہوگا، شاباش دی جانی چاہئیے سزا یافتہ اور،، انتخابی نتائج ،، کے مطابق عوام کی جانب سے معزول کردہ بادشاہ کی سزا یافتہ بیٹی کو جو جیل سے باہر بھی ہے، جلسے جلوس بھی کر رہی ہے اور اپنی پارٹی کے میڈیا سیل کو بھی کامیابی سے چلا رہی ہے۔ حکومت اور حکومتی ادارے اس کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔شہزادی کے رگ و پے میں انتقام اور جارحیت کا زہر پھیل چکا ہے،ایک ایسا زہر جو پھیلتا کسی کے جسم میں ہے اور جانیں لیتا ہے دوسرے لوگوں کی،وہ سیاسی شطرنج کی شاندار کھلاڑی ہیں، ان کی عمر صرف پانچ سال تھی جب انہوں نے تاریخی محلاتی سازشوں کو اپنے گھر میں پنپتے دیکھا، اور پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی اسرار ورموز ان کی تربیت کا حصہ بننے لگے، وہ آج حقیقی زندگی میں نانی ہیں تو سیاسی زندگی میں بھی اتنی ہی میچور نظرآتی ہیں،آپ اس بات کوآسانی سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں بلاول بھٹو کی طرح آج کی نسل کی سیاستدان نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی نس نس میں ہوشیاریاں اور پھرتیاں بھری ہوئی ہیں، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو ایک ہی منزل کے راہی نہیں کہا جا سکتا، بلاول ان سے سولہ برس چھوٹے بھی ہیں اور بہت سارے معاملات میں نا تجربہ کار اور اناڑی بھی، بلاول کا تعلق ’’مظلومین کے سیاسی خاندان‘‘ سے ہے، وہ شاید مریم نواز کو خالہ صنم سمجھ کر ان کے سامنے احتراماً جھکے تھیکہ ان کی اس تصویر کو ن لیگ کے میڈیا سیل نے سوشل میڈیا پر ایسے اچھالا جیسے انہوں نے ’’عقل کل معزول شہزادی‘‘ کی بیعت کرلی ہو، بلاول تو بلاول پنجاب کی سیاسی تاریخ کے زیرک ترین سابق وزیر اعلی اور شہزادی کے چچا حضور بھی اپنی بھتیجی کے سامنے طفل مکتب دکھائے جا رہے ہیں، مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ ن لیگ کا مریم بیزار دھڑا اس خدشے میں بھی مبتلا ہے کہ شہباز شریف کی بھی درجنوںآڈیو، ویڈیوز بھی محفوظ کی جا چکی ہیں جن میں وہ اسٹیبلشمنٹ اورریاستی اداروں کے حکام کے خلاف بولتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ احتساب عدالت کے جج کے وضاحتی بیان میں ایک اور بات بھی غور طلب ہے جو ان کے کردار کو بظاہر مشکوک بناتی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ پانامہ لیکس سے معرض وجود میںآنے والے مقدمات کی سماعت کے دوران انہیں نواز خاندان کی جانب سے بھاری رشوتوں کی پیش کش کی گئی، ہاں! یہ بات درست ہو سکتی ہے، مگر جج صاحب سے سوال یہ ہے کہ اتنے ہائی پروفائل کیس میں انہوں نے ان پیش کشوں پر پردہ کیوں ڈالے رکھا؟ وہ یہ بات اپنے ادارے کے چیئرمین اور سپریم کورٹ کے علم میں کیوں نہ لائے؟ انہوں نے یقیناً ایسا نہیں کیا اور اس خاموشی کا مطلب ایک ہی لیا جا سکتا ہے کہ وہ احتساب کی اس فلم میں دوہرا کردار ادا کر رہے تھے، مریم نواز کی جانب سے جج صاحب کی ویڈیو منظر عام پر لائے جانے کے بعد پہلی غلطی وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات نے پریس کانفرنس کرکے کی، یہ پریس کانفرنس انتہائی عجلت میں کسی سوچ بچار کے بغیر کی گئی، ایسا لگا کہ بس ردعمل دینا ضروری تھا اور وہ دیدیا گیا، نہ صرف دوسرے وفاقی وزراء نے تبصرے فرمائے ، مریم نواز کی ’’حقائق‘‘ پر مبنی یا فراڈ پر مبنی ویڈیو لیک پر حکومت نے تبصروں کی غلطی ہی نہیں کی، یہ بھی اعلان کر دیا کہ حکومت اس ویڈیو کی فرانزک انکوائری کرائے گی، لیکن ایسا نہ کیا گیا جس سے لا محالہ آوازیں اٹھیں کہ ’’فرانزک رپورٹ میں ویڈیو اصلی ثابت ہو گئی ہے‘‘ حالانکہ یہ بے بنیاد ن لیگی پروپیگنڈہ تھا۔۔۔ مریم نواز نے جو ’’ثبوت‘‘ پیش کیا اگر سو فیصد درست بھی ہے تو اس کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہئے تھا۔ معزول شہزادی نے ایک جج کو نہیں پوری عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی شعوری کوشش کی، میرے جیسے کئی لوگ نیب کے ادارے کے وجود کے سخت ترین مخالف ہیں، ماضی میں بھی اس ادارے کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کرنے کی مثالیں موجود ہیں، خود نواز شریف کے ادوار حکومت میں نیب پیپلز پارٹی کے خلاف سب سے بڑا حکومتی ہتھیار رہا ہے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مریم نواز نے ویڈیو لیک کی ہے اس کا انہیں مروجہ قوانین کی روشنی میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ ویڈیو نواز شریف کی سزا ختم کرا سکتی ہے نہ انہیں جیل سے باہر لا سکتی ہے، ہاں! ایک صورت ضرور موجود ہے کہ جج ارشد ملک سپریم کورٹ کے سامنے حاضر ہوں اور وہاں ثبوتوں کے ساتھ بیان ریکارڈ کرائیں کہ انہوں نے نواز شریف کو سزا فلاں فلاں پریشر پر سنائی تھی اور فلاں فلاں وجوہات کی بنیاد پر وہ سزا کے حقدار نہ تھے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website