لاہور;جب سے عمران خان کے وزیراعظم بننے کی خبریں آئی ہیں دوستوں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے ، کچھ ”دوست“ بس ایسے ہی ہوتے ہیں اُن کا بس چلے مرنا بھی حرام کر دیں، ان کا خیال ہے عمران خان اور پی ٹی آئی کے حق میں
نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جتنا میں نے لکھا ہے ، یا عمران خان کے ساتھ جتنا پرانا اور ذاتی تعلق ہے اس کے مطابق میرا یہ حق بنتا ہے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلا کام اسے یہ کرنا چاہئے مجھے کسی ادارے کا چیئرمین وغیرہ بنا دے یا کسی ملک میں سفیر وغیرہ بنا کے بھیج دے، جوکہ ایک بار میرے بچوں کی موجودگی میں وہ کہہ بھی چکا ہے کہ ”آپ کی پی آر بڑی زبردست ہے ، ہماری حکومت آئی آپ کو کسی ملک میں سفیر بنا کر بھیجیں گے تاکہ پاکستان کو اس کا فائدہ ہو“…. تب میں نے عرض کیا تھا جس پر وہ مسکرا پڑا تھا کہ ”آپ کی حکومت آئی مجھے یقین ہے تمام تقرریاں میرٹ پر ہوں گی اور میرٹ پر میرا یہ حق نہیں بنتا، ویسے بھی اللہ نے جس کام کے لئے مجھے پیدا کیا ہے اس سے ہٹ کر کوئی اور کام کرنے کا چاہے اس میں کتنا ہی فائدہ کیوں نہ ہو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرا کام کالم لکھنا ہے اور اس کام میں اللہ نے میری سوچ اور میری اوقات سے بہت بڑھ کر مجھے نوازا ہے “…. میری پوری کوشش ہوتی ہے
کہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کروں گو کہ عوام کے بہت سے ”جذبات“ پر مجھے اعتراض بھی ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں اس میں اتنا قصور عوام کا نہیں جتنا ہمارے حکمرانوں کا ہے کہ انہوں نے اپنے عوام کی ایسی تربیت کا کبھی اہتمام ہی نہیں کیا جس کے مطابق وہ دنیا میں ایک ”قوم“ کہلوانے کے مستحق ٹھہریں…. عمران خان سے ہمیں بڑی امیدیں وابستہ ہیں، مجھے یقین ہے ان امیدوں اور آرزوﺅں کے حوالے سے وہ ہمارے ساتھ اس شعر جیسا سلوک نہیں کرے گا کہ ”ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی…. آنکھ میں ”موتیا“ اتر آیا“ ویسے اس سے قبل جو حکمران ہم پر مسلط تھے ان کی بے ایمانیاں اور نااہلیاں دیکھ دیکھ کر آنکھ میں خون اتر آیا کرتا تھا…. جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے عمران خان کے بارے میں میں نے ہمیشہ وہی لکھا جو سچے دل سے میں نے محسوس کیا۔ فرمایا گیا ”کسی کو صحیح معنوں میں جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کریں“…. میں نے اس کے ساتھ سفر کئے اس کی دو خوبیوں کے بارے میں ، میں نہ بھی بتاﺅں، دنیا جانتی ہے حتیٰ کہ اس کے مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں
ایک وہ بے ایمان نہیں ہے ، دوسرا پاکستان سے بے پناہ محبت کرتا ہے ، اور دل سے چاہتا ہے پاکستان اور اس کے عوام کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھے، اس حوالے سے اس کے جذبات کو کئی بار اس کی آنکھوں میں میں نے تیرتے ہوئے دیکھا ہے ، سو اس کے ساتھ میری محبت اصل میں پاکستان کے ساتھ میری محبت ہے جس نے میری اوقات اور سوچ سے الحمدللہ بہت بڑھ کر عزت دی۔ میں اب تک تقریباً تیس ممالک کا دورہ کر چکا ہوں بیرونی دنیا میں مقیم میرے اکثر دوست، خصوصاً امریکہ اور کینیڈا میں مقیم رشتہ دار مجھے اکساتے ہیں میں ان ممالک کی شہریت حاصل کر لوں، صرف اکساتے نہیںبے شمار ایسے جائز ناجائز طریقے بھی بتاتے ہیں جنہیں اختیار کر کے آسانی سے شہریت حاصل کی جا سکتی ہے ، میں ہمیشہ ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں، ”جس ملک نے میری سوچ اور اوقات سے بڑھ کر مجھے عزت دی، جہاں میرے بزرگوں کی قبریں ہیں، میں اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا“….جہاں تک مجھے کسی سرکاری عہدے سے نوازے جانے کا تعلق ہے 28نومبر کو خان صاحب کا مجھے فون آیا، فرمانے لگے ”تم ابھی تک ادھر بیٹھے کیا کر رہے ہو؟
فوراً واپس آﺅ“…. اس سے پہلے پی ٹی آئی کے ایک اور اہم رہنما اور حال ہی میں منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی جن کا نام میں بوجوہ نہیں لکھ رہا نے بھی مجھے فون کیا اور بڑی بے چینی سے فرمانے لگے”فوراً واپس آئیں تاکہ ہم آپ کے لئے لابنگ کریں اور آپ کو آپ کے شایان شان کوئی عہدہ وغیرہ دلائیں“…. مجھے ان کی بات سن کر بڑی ہنسی آئی، میں نے سوچا یہ مجھے جانتے نہیں ہیں اور وہ واقعی زیادہ عرصے سے مجھے نہیں جانتے تھے، میں نے عرض کیا ”میں کسی اہم سرکاری اور درباری عہدے کا خود کو مستحق نہیں سمجھتا، سو آپ میری بجائے اپنے لئے لابنگ کریں تاکہ آپ کی وزارت پکی ہو سکے جو فی الحال کچی پکی ہے …. چوہدری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب تھے ایک بار انہوں نے فرمایا ”آپ نے ساری زندگی ”ماسٹری“ ہی کرنی ہے ؟“…. وہ مجھے لاہور آرٹس کونسل، چلڈرن لائبریری کمپلیکس اور پنجابی ادب و ثقافت کا ایک ادارہ جو انہوں نے تازہ تازہ قائم کیا تھام اس کا کوئی ڈائریکٹر وغیرہ بنانا چاہتے تھے، مجھے بتایا گیا ان اداروں کے سربراہ کے طور پر میری بھاری تنخواہ ہو گی مراعات وغیرہ اس کے علاوہ ہوں گی،
میں نے ان کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور معذرت کر لی، وہ سمجھے میں شاید اس سے زیادہ اہم بڑے عہدے کا طلب گار ہوں، فرمانے لگے ”اچھا چلیں آپ اپنی مرضی کا کوئی عہدہ بتا دیں ہم آپ کو وہاں لگا دیتے ہیں“…. میں نے عرض کیا ”آپ میرے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو قذافی سٹیڈیم میں سترہ ایکڑ رقبے پر مشتمل ایک فزیکل ایجوکیشن کالج ہے جس میں صرف 80 طلبہ زیرتعلیم ہیں، فزیکل ایجوکیشن میں طلبہ کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے ایف سی کالج کی امریکن چرچ کو واپسی کے بعد ایم اے او کالج سے للیانی کالج قصور تک کام کا ایک تعلیمی ادارہ بھی نہیں ہے ، آپ اس کالج کو جنرل کالج کا درجہ دے دیں آپ کا یہ کارنامہ یاد رکھا جائے گا“…. انہوں نے فوری طور پر سیکرٹری ایجوکیشن سے کہا کہ اس حوالے سے تین یوم کے اندر اندر سمری بھجوائی جائے کچھ عرصے بعد اس کالج کو باقاعدہ جنرل کالج کا درجہ دے کر ”گورنمنٹ کالج گلبرگ“ کے نام سے آباد کر دیا گیا جہاں چار ہزار سے زائد غریب لوگوں کے لائق بچے اس وقت زیرتعلیم ہیں، میں جب بھی اس کالج میں قدم رکھتا ہوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے
چوہدری پرویزالٰہی نے مجھے کسی ایسے بڑے اور اہم عہدے سے نواز دیا ہے جس پر ساری زندگی مجھے ان کا ممنون رہنا چاہئیے…. انسان کی عزت عہدوں سے نہیں ہوتی، عہدے رتبے بہت عارضی چیز ہوتے ہیں، میرے خیال میں تو یہ باعث آزمائش ہوتے ہیں، بلکہ سچ پوچھیں بہت عزت دار انسان جب کسی سرکاری و درباری عہدوں کے لالچ میں پڑ جاتا ہے اور وہ عہدے اسے مل بھی جاتے ہیں تو ان پر فائز ہونے کے بعد کئی لوگوں کو میں نے دیکھا ان کی عزت بڑھنے کے بجائے الٹا کم ہو گئی۔ اس حوالے سے اپنے ملک کے دو تین بہترین کالم نگاروں کا حشر میں دیکھ چکا ہوں، اب انہی کے مقام پر میں کیسے کھڑا ہو سکتا ہوں؟…. سکون، شکرگزاری اور بے نیازی سے بڑھ کر ”عہدہ“ دنیا میں کوئی نہیں ہوتا، اس دولت سے اللہ نے مجھے اتنا نوازرکھا ہے میں اس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ، دل میں سوائے اس کے کوئی خواہش جنم نہیں لیتی کہ جو عزت میری اوقات میرے علم میری قابلیت اور میری اہلیت سے بہت بڑھ کر اللہ نے مجھے عطا کی ہے ، وہ نہ صرف برقرار رہے اس میں اضافہ بھی ہو…. ایک دوست نے مجھ سے پوچھا ”تم نے عہدہ کیوں ٹھکرایا؟“…. میں نے عرض کیا ”ٹھکرایا نہیں، معذرت کی ہے معافی مانگی ہے میں خود کو خودبخود اس آزمائش سے بچانا چاہتا ہوں مجھے پتہ ہے وزیراعظم کا میڈیا ایڈوائزر بن کر میں ممنون مزاج کے حامل لوگوں، دوستوں اور صحافیوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا!