تحریر: محمد شاہد محمود
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینٹ کے نومنتخب چیئرمین نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی قائم مقام صدر کا منصب بھی سنبھال لیا۔ میاں رضا ربانی نے سینٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور حلف اٹھاتے ہی صدر مملکت کے بیرون ملک دورے کی وجہ سے انہوں نے قائم مقام صدر کے منصب کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیں اور پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے پہلے اجلاس کے دوران پریزائیڈنگ آفیسر سینیٹر اسحاق ڈار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ارکان سینٹ اظہار خیال کے لئے مختصر وقت لیں کیونکہ وہ میاں رضا ربانی اور قائم مقام صدر مملکت کے منصب کے درمیان زیادہ وقفہ نہیں دینا چاہتے کیونکہ چیئرمین کا حلف اٹھاتے ہی وہ قائم مقام صدر کا منصب بھی سنبھال لیں گے۔
حلف اٹھانے کے بعد میاں رضا ربانی سینیٹر اسحاق ڈار کو پریزائیڈنگ آفیسر مقرر کرنے کے بعد ایوان سے رخصت ہوگئے۔ سینٹ کے نو منتخب چیئرمین میاں رضا ربانی ایک تجربہ کار سینئرسیاستدان اور پیپلز پارٹی کے پرعزم رہنماء ہیں۔ سینٹ سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق 60 سالہ رضا ربانی سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار اور سینئرسیاستدان ہیں جنہیں آئینی اصلاحات اور فلاحی خدمات کی بدولت شہرت ملی ہے۔ میاں رضا ربانی پیپلز پارٹی کے پرعزم رہنماء ہیں ۔وہ 1981ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں متحرک ہوئے اور پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور سینٹ میں پارلیمانی رہنما بنے۔ میاں رضا ربانی کو پارلیمانی خدمات کے اعزاز میں سب سے بڑے سول ایوارڈ نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ انہیں صوبوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے خدمات کیلئے باچا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ میاں رضا ربانی کو ہیومن وائٹس سوسائٹی پاکستان نے انسانی حقوق کیلئے نمایاں خدمات سرانجام دینے پر 2006ء کے ایوارڈ کیلئے بھی منتخب کیا گیا۔
وہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے وائس چیئرمین فورم آف فیڈریشن ٹورنٹو کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، انٹر پارلیمنٹری یونین اور دولت مشترکہ کی پارلیمانی یونین میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ میاں رضا ربانی فیصل آباد کی ایک ممتاز میاں فیملی سے تعلق رکھتے ہیں جو بعد میں مختصر عرصہ لاہور میں قیام کرنے کے بعد کراچی میں آباد ہو گئی۔ یہیں سے انہوں نے حبیب پبلک سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر بعد میں بی اے آنر کیلئے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر یہیں سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ سینیٹر میاں رضا ربانی کے والد گروپ کیپٹن (ر) میاں عطاء الرحمان ربانی کو قائداعظم محمد علی جناح کے پہلے اے ڈی سی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ رضا ربانی پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن بنے اور 1988ء میں پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور انہیں وزیراعلی کا مشیر مقرر کیا گیا۔مسلم لیگ (فنکشنل) کے سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ میاں رضا ربانی چیئرمین سینٹ کا حلف اٹھاتے ہی قائم مقام صدر بھی بن گئے ہیں۔ میاں رضا ربانی نے طالب علم لیڈر ‘ وکیل’ انسانی حقوق کے علمبردار اور ممتاز پارلیمنٹرین کی حیثیت سے اپنا مقام پیدا کیا ہے اور ان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
وہ صوبائی خودمختاری کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئی ہیں اور انہیں متفقہ طور پر چیئرمین سینٹ کا امیدوار نامزد کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ میاں رضا ربانی کی چیئرمین شپ کے دور میں بھی سینٹ کی تاریخ اور روایات کا سنہری دور اسی طرح تابندہ رہے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ میاں رضا ربانی پر چیئرمین سینٹ منتخب ہونے کے بعد بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے’ یہ عہدہ ان کے لئے ایک آزمائش بھی ہے’ اب رائٹ اور لیفٹ کی بجائے حق کی سیاست کرنی چاہیے۔ ایک ایسے ایوان کا رکن منتخب ہونے پر انہیں خوشی ہے کہ جس کے چیئرمین میاں رضا ربانی ہوں گے’ میاں رضا ربانی نہ صرف اچھے سیاست دان بلکہ بہت اچھے انسان ہیں۔ یہ عہدہ ان کیلئے ایک آزمائش اور بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس وقت ساری دنیا ہماری طرف دیکھی رہی ہے۔ ہم سب نے مل کر غربت’ جہالت’ دہشت گردی’ بدامنی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنا ہے۔ قوم کو اس وقت جوش کی بجائے ہوش کی ضرورت ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی بجائے حق کی سیاست کرنی چاہیے کیونکہ یہی وقت کی ضرورت ہے۔سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے نومنتخب چیئرمین میاں رضا ربانی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ان کا بلا مقابلہ انتخاب بہت اہمیت کا حامل ہے’ ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کہ وہ پورے ایوان کو بلا تفریق ساتھ لے کر چلیں۔ ہم پرامید ہیں کہ وہ سابقہ تجربے کی بنیاد پر ایوان کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ جس ماحول میں ان کا انتخاب ہوا ہے اس کی وجہ سے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
فاروق ایچ نائیک’ وسیم سجاد اور سید نیئر حسین بخاری نے مثال قائم کی ہے’ وہ اب انہیں برقرار رکھنی ہے۔ اس کے علاوہ اتفاق رائے سے انتخاب کی وجہ سے ان پر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سارے ایوان کو بلا تفریق ساتھ لے کر چلیں گے۔ میاں رضا ربانی بنیادی طور پر ایک سیاسی کارکن اور ایوان بالا کا افتخار ہیں’ انہوں نے ہمیشہ پسے ہوئے اور مظلوم طبقات کے لئے آواز اٹھائی۔ ہمارے ملک میں لیفٹ کی سیاست ختم ہو چکی ہے’ میاں رضا ربانی بنیادی طور پر سیاسی کارکن ہیں’ وہ سیاسی کارکنوں کا وقار اور جمہوریت کا اعتبار اور ایوان بالا کا افتخار ہیں۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ سینٹ ملک کا ایوان بالا ہے اس کے اختیارات بڑھانے کی ضرورت ہے’ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں’ میاں رضا ربانی ایک سیاسی کارکن ہیں’ جب تک ملک میں امن قائم نہیں ہوگا ترقی نہیں ہو سکتی۔ میاں رضا ربانی ایک سیاسی کارکن ہیں’ سینٹ کی بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اس کو نہیں بھولنا چاہیے اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے جمہوریت بحال کرائی۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ نومنتخب چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کو میں نے رضا ربانی کو ہمیشہ آئین و قانون کا پابند پایا ‘ پارلیمنٹ کی خودمختاری کیلئے رضا ربانی ہمیشہ سب سے آگے رہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی بات یہ ہے کہ رضا ربانی پہلے لیفٹسٹ ہیں’ میں اس ایوان میں آمد پر تحریک انصاف’ جماعت اسلامی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے نومنتخب چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹر رضا ربانی کی زندگی کا آج ایک اہم موڑ ہے’ ہم نے آئین اور جمہوریت کی بحالی کے لئے ایک ساتھ جدوجہد کی ہے۔ میاں رضا ربانی اس ایوان میں جمہوریت’ وفاق کو مضبوط رکھنے اور اصولوں کی سیاست کی علامت ہیں۔
انہوں نے کبھی ظلمت شب کا شکوہ نہیں کیا بلکہ اپنے حصہ کی شمعیں جلاتے رہے۔ یہ ایوان بالا کے وقار میں اضافہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ رضا ربانی نے آج وہ منزل حاصل کرلی ہے جو انہیں بہت پہلے مل جانی چاہیے تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ اور پریزائیڈنگ آفیسر سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ رضا ربانی کے ساتھ ان کا سیاسی تعلق 25 سال پرانا ہے’ وہ چیئرمین سینٹ کے عہدے کے لئے اہل ترین شخص ہیں۔ پچھلے 25 سال سے وہ رضا ربانی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں’ پہلی مرتبہ ہم نے مل کر میثاق جمہوریت کا مسودہ تیار کیا۔ اس میں ہمیں احسن اقبال اور ڈاکٹر صفدر عباسی کی بھی معاونت حاصل رہی’ اس کے علاوہ 18 ویں ترمیم میں بھی ان کی سربراہی میں کام کیا۔ اس کے علاوہ قومی سلامتی کمیٹی میں بھی ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں رضا ربانی اس عہدے کے لئے اہل ترین شخص ہیں۔ میثاق جمہوریت کے مسودے کی تیاری میں رضا ربانی کا کلیدی کردار تھا۔سینٹ کے نومنتخب چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا کہ وہ نومنتخب سینیٹرز کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ سینٹ کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیں گے اور سینٹ کے وقار میں اضافہ کریں گے۔ وہ اس موقع پر پاکستان کی تمام پارلیمانی سیاسی قیادت جس نے اتفاق رائے سے انہیں چیئرمین منتخب کیا وہ اس تمام قیادت کے شکرگزار ہں کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔ میری کوشش ہوگی کہ ان کے اس اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائوں اور ان کے اعتماد پر پورا اتر سکوں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینٹ کے طور پر ان کی حتی الامکان کوشش ہوگی کہ وہ تمام ارکان کو پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر یکساں مواقع فراہم کریں۔ وہ پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری کے منصب پر فائز تھے لیکن چیئرمین بننے کی وجہ سے انہوں نے پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے مجھے اس مقام پر پہنچانے میں سب سے اہم کردار شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی طرف سے نامزدگی اور وزیراعظم نواز شریف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے توثیق پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور عوامی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔ وہ پارلیمنٹ کے استحکام’ پارلیمانی روایات کے فروغ اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کردار ادا کریں گے۔
تحریر: محمد شاہد محمود
برائے رابطہ:03214095391