counter easy hit

الجزیرہ سے تعلق رکھنے والے افغان صحافی رحمت اللہ نیک زاد کا قتل، طالبان کی طرف سے شدید مذمت

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) افغانستان میں تشدد کی شدید لہر کے دوران ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی رحمت اللہ نیک زاد کو ہلاک کردیا گیا۔طالبان نے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔ افغانستان کے معروف صحافی رحمت اللہ نیک زاد کو گھر کے قریب مسجد جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔وہ مقامی صحافیوں کی ایک تنظیم کے سربراہ بھی تھے۔رحمت اللہ نیک زاد کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ پیشہ ور صحافی کے طور پر وہ اپنی رپورٹ میں ہر رخ کو بیان کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انہیں امریکا، افغان حکومت اور طالبان سبھی نے متعدد بار گرفتار بھی کیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیچھے چھ بچوں کو چھوڑا ہے۔ غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق افغانستان میں صحافی رحمت اللہ نیک زاد کے قتل کی ہر جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے۔ رحمت اللہ نیک زاد کا تعلق صوبہ غزنی سے تھا جہاں وہ مقامی صحافیوں کی ایک تنظیم کے صدر بھی تھے۔ افغانستان میں صحافیوں کی ایک تنظیم ‘افغان جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی’ کے مطابق ایک فری لانس صحافی کی حیثیت سے نیک زاد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس اور معروف میڈیا ادراے الجزیرہ کے لیے کام کیا کرتے تھے۔ملک کے صدر اشرف غنی نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ پیر 21 دسمبر کے روز نیک زاد کو ایک نا معلوم حملہ آور نے اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا جب وہ اپنے گھر کے قریب ایک مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ مقامی پولیس کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حملہ آور نے رحمت اللہ نیک زاد کو قتل کرنے کے لیے ایسی بندوق کا استعمال کیا جو سائلینسر سے لیس تھی اور انہیں ان کے گھر کے پاس ہی قتل کر کے فرار ہو گیا۔ طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور ایک بیان میں اسے بزدلانہ حملہ بتایا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ”ہم اس قتل کو ملک کے ایک بڑے نقصان کے طور پر دیکھتے ہیں۔”

AFGHAN, JOURNALIST, REHMAT ULLAH NAIKZADA, KILLED, IN, AFGHANISTAN


صوبہ غزنی کا ایک بڑا علاقہ اب بھی طالبان کے زیر اثر ہے۔افغانستان میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے متعدد حملوں کا الزام شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ پر عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض حملوں میں صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
افغانستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک

صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ‘رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرز’ نے افغانستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے۔ افغانستان کی ‘جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی’ کا کہنا ہے اس برس اب تک ملک میں کم سے کم سات میڈیا اہلکاروں کو قتل کیا جا چکا ہے، جب کہ پچھلے دو ماہ کے دوران پانچ صحافیوں کو ہلاک کردیا گیا۔

نومبر کے اوئل سے ہی ہدف بناکر صحافیوں کو قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں کہیں بم تو کہیں گولیوں سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران طلوع نیوز کے میزبان یاما سیواش، ریڈیو آزادی کے رپورٹر الیاس داعی، انعکاس ٹی وی کی اینکر ملالائی میوند اور اریانا نیوز کے میزبان فریدین امینی جیسے صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

افغانستان میں امن کے قیام کے لیے گرچہ طالبان قیادت اور حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے تاہم اس کے باوجود حالیہ مہینوں میں خطے میں تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس دوران اہم سیاست دانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت متعدد اہم شخصیات کو قتل کیا جا چکا ہے۔ فی الوقت دوحہ میں جاری امن بات چیت بھی آئندہ برس کے اوائل تک کے لیے موخر ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website