اسلام آباد(ایس ایم حسنین) افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سست روی کا شکار ہونے والے مذاکرات کا اہم مرحلہ آج پانچ جنوری منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہورہا ہے۔ 2021 کے آغاز پر شروع ہونے والے مذاکرات کے اس مرحلے میں فریقین 11 ستمبر کو ہونے والے حملوں کے نتیجے میں امریکی فوج کے زیرقیادت 2001 میں طالبان کو معزول کیے جانے کے بعد سے افغان حکومت کے مذاکرات کار مستقل طور پر جنگ بندی اور موجودہ نظام حکمرانی کا تحفظ یقینی بنانے پر پر زور دینگے۔ ان مذاکرات میں تسلسل کے ساتھ کردارادا کرنے والے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کی ایک روز قبل پاکستان آمد اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کو بھی اس تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے تاہم اب تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ گزشتہ برس کے اواخر میں بڑی مشکلوں کے بعد فریقین مذاکرات کو آگے بڑھانے کے ایجنڈے پر رضامند ہوئے تھے۔ افغان حکومت کے مذاکرات کار غلام فاروق مجروح کے مطابق ”یہ مذاکرات انتہائی پیچیدہ اور صبر آزما ہو سکتے ہیں تاہم ہمیں امید ہے کہ ہم جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچیں گے کیوں کہ لوگ اس خون خرابے سے تھک چکے ہیں۔” دوسری جانب طالبان نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کافی لیت و لعل کے بعد گزشتہ برس ستمبر میں براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن بات چیت کے فریم ورک اور بعض امور میں مذہبی تشریحات پر تنازعہ ہو جانے کی وجہ سے یہ جلد ہی تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ بہرحال پاکستان اور امریکا کی طرف سے مربوط سفارتی اقدامات کے نتیجے میں فریقین کے مابین مذاکرات کے ایجنڈے پر اتفاق رائے ہو گیا۔