اسلام آباد(یس اردو نیوز) افغانستان میں فریقین کی طرف سے جنگ بندی کے بعد ایک اوربڑی پیشرفت ہوئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے خطاب میں جذبہ خیر سگالی کے تحت اضافی 500 طالبان قیدیوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔ اشرف غنی نے کہا کہ مجھے ان 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے، جن پر سنگین جرائم کا الزام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان عمائدین کا اجتماع ان کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ عسکریت پسندوں کو عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران آزاد کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ جمعہ سے قیدیوں کو آزاد کرنے کا عمل شروع ہوگا۔ اشرف غنی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 5 ہزار طالبان قیدیوں کا وعدہ پورا ہوجائے گا جو طالبان اور امریکا کے مابین معاہدہ میں طے پایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ‘طالبان نے 3 دن کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا اس لیے خیر سگالی کے تحت اضافی 500 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد افغان امن عمل کو تیزی سے آگے بڑھانا بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ طالبان نے عید الاضحیٰ کے 3 دن کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور ردعمل پر افغان حکومت نے سیکیورٹی فورسز کو سیز فائر کا حکم دیا تھا۔ افغان حکومت کی جانب سے جو 500 قیدیوں کو رہائی نصیب ہورہی ہے وہ ان 5 ہزار قیدیوں کی فہرست سے الگ ہیں جو طالبان اور امریکا کے مابین معاہدے میں شامل ہے۔ واضح رہے کہ کابل حکام نے 4 ہزار 600 قیدیوں کو پہلے ہی رہا کردیا ہے لیکن وہ 400 قیدیوں کی رہائی کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ حکام باقی ماندہ 400 قیدیوں کو خطرناک سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب ان 400 عسکریت پسندوں کی رہائی پر زور دینے والے طالبان نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ گزشتہ روز طالبان نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے تمام ایک ہزار افغان اہلکار قیدیوں کی رہائی مکمل کرلی ہے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔ قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔ تاہم افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا گیا۔ جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کے جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔ 18 مئی کو قبل طالبان نے دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ دہرایا تھا، دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل میں ہے، قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے چاہیئیں۔