تحریر: غلام مرتضی باجوہ
امریکہ کی کئی سالوں سے افغانستان میں دہشتگردوں کیخلاف جنگ جاری ہے جس کے نتائج پاکستان کو افغان مہاجرین اور دہشتگردوں کی صورت میں مل رہے ہیں۔ تقریبا 50 لاکھوں افغانی اس وقت پاکستان میں موجودہیں۔ لیکن بدنصیبی سے حکمران اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ درجنوں افغانی پاکستان کیخلاف کارروائی میں ملوث ہیں۔ کوئی لیڈر پورا سچ بولنے اور سامنے لانے کیلئے تیار نہیں۔ انہیں صرف وہ عناصر دہشت گرد لگتے ہیں جو ان کے مفادات کے خلاف سرگرم ہوں اور ان کی ہدایات ماننے سے انکار کر دیں۔جب تک اس دوہرے معیار اور پالیسی کو ترک کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے، اس وقت تک دہشت گردی کسی نہ کسی صورت میں کہیں نہ کہیں پر موجود رہے گی۔
امریکی صدر نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے چارسدہ میں ہونے والے حملے اور اس میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اس سلسلہ میں مزید اقدام کر سکتا ہے اور اسے انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے سخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بیان سے سوال یہ پیداہوتاہے کہ اوباما نے بھی اب اپنی آواز ان لوگوں کے ساتھ ملا دی ہے جو پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں ۔تو پاکستان نے بھی امریکی صدر کی اس رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ زمینی حقائق سے متصادم ہے۔ پاکستانی فوج اور حکومت دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ سانحہ چارسدہ نے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والی دہشت گرددی کی یاد تازہ کر دی۔ گزشتہ برس کے دوران دہشت گردوں کے خلاف جو جنگ جیتی ہوئی سمجھی جا رہی تھی، اب اس کے بارے میں شبہات ابھرنے لگے ہیں۔ لوگوں کی زیادہ تعداد اب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس اعلان پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ 2016 کے دوران ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
2016 کے شروع ہی میں پے درپے سامنے آنے والے سانحات اور ان پر سرکاری اداروں کا غیر واضح ردعمل ہے۔ اب یہ رائے تقویت پکڑ رہی ہے کہ فوج نے اگرچہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کیا ہے لیکن حکومت اس فوجی آپریشن کے ثمرات سمیٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ بات بھی اتفاق رائے سے کہی جاتی ہے کہ فوج تو مستعد ہے اور ہر موقع پر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن حکومت قومی ایکشن پلان کے تحت قانون سازی کرنے، انٹیلی جنس کو مربوط بنانے اور مذہبی منافرت کے خلاف اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ماہرین ،مبصرین اور صحافیوں کاکہناہے کہ دسمبر 2014 کے بعد رونما ہونے والے حالات و واقعات سے یہ دیکھنے میں آ یا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ وہ اکثر ملتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن بظاہر تعاون اور خوشگوار سول ملٹری تعلق کی تصویر عملی منظر نامے میں دھندلی ہو جاتی ہے۔ اب یہ احساس عام ہو رہا ہے کہ فوج اور ملک کے سیاسی رہنمائوں کے درمیان انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے بعض اصولی پالیسی معاملات پر اختلافات موجود ہیں۔
چند روز قبل بھارتی علاقے پٹھان کوٹ ائر بیس پر دہشت گرد حملہ نے پاکستان کی انتہا پسند تنظیموں اور بااثر قوتوں کے ساتھ ان کے مراسم کے بارے میں بھی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ حملہ اس حوالے سے بھی خاص توجہ کا مرکز بنا ہے کہ یہ کارروائی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ لاہور کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد کی گئی۔ اس لئے متعدد مبصر یہ قرار دے رہے ہیں کہ پٹھان کوٹ ائر بیس کو نئی دہلی اور اسلام آباد میں مفاہمانہ عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے نشانہ بنایا گیا تھا۔
صدر باراک اوباما کا حالیہ بیان بھی پٹھان کوٹ حملہ اور اس پر پاکستانی حکومت کے غیر واضح موقف اور نیم دلانہ اقدامات کی روشنی میں ہی سامنے آیا ہے۔ بھارت اسے سرحد پار سے دہشت گرد کارروائی قرار دیتا ہے جبکہ پاکستان اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ غیر سرکاری ذرائع اور مبصر اسے بھارتی فوج کی ناکامی اور ان کی انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دینے سے بھی نہیں چوکتے۔
امریکہ یوں تو پاکستان سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ بلا تفریق سب شدت پسندوں گروہوں کے خلاف کارروائی کرے لیکن گزشتہ پانچ چھ برس سے وہ براہ راست یا بالواسطہ طور سے افغان طالبان سے سیاسی مذاکرات کرنے کی تگ و دو بھی کر رہا ہے ۔ لیکن نہ امیریکہ افغان طالبان کی سرپرستی سے دستبردار ہونا چاہتا ہے اور نہ ان عسکری گروہوں اور مذہبی لیڈروں سے علیحدگی اختیار کرتا ہے جو بوقت ضرورت ملک میں اسلام اور جہاد کے نام پر بھارت دشمن جذبات کو ہوا دینے کے کام آسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان مہاجرین کو باعزت اور فوری پاکستان سے واپس جانے کا حکم دے تاکہ ملک دشمن عناصر کیخلاف کارروائیوں سے پاکستان میں امن قائم ہوسکے۔
تحریر: غلام مرتضی باجوہ