اسلام آباد(ایس ایم حسنین) ایران کی جانب سے افغان امن مذاکرات میں امریکی کردار پر سوال اٹھانے کے بعد طالبان نے ایران کو مداخلت سےباز رہنے کا کہا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انہیں ‘امریکہ کے لیے تاریخی سکینڈل’ قرار دیا تھا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ ایران افغان امن عمل میں دخل اندازی نہ کرے۔ ایران کی جانب سے افغان امن مذاکرات میں امریکی کردار پر سوال اٹھانے کے بعد طالبان نے بیان جاری کیا ہے کہ ایران افغان مذاکرات کے حوالے سے مشورے دینے سے گریز کرے۔ سوموار کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انہیں ‘امریکہ کے لیے تاریخی سکینڈل’ قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق انیس سال قبل امریکہ نے افغانستان پر ‘طالبان سے جنگ’ کے نام پر قبضہ کیا تھا جبکہ اب
امریکہ ‘اسی گروپ سے مذاکرات کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔’ دوحہ میں جاری بین الاافغان مذاکرات فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد شروع ہوئے ہیں۔ طالبان کی جانب سے اپنی پشتو زبان کی ویب سائٹ پر جاری کیے جانے والے اس بیان میں کہا گیا کہ ‘ایرانی حکومت کے ترجمان نے ایران کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے جو مشورہ دیا ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” سعید خطیب زادہ نے مذاکرات میں امریکی کردار پر تنقید کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ ‘مذاکرات افغان آئین کے تحت ہونے چاہییں۔ جبکہ خواتین، نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو بھی یاد رکھنا ہو گا۔’ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا ہے جب مذاکرات میں شریک طالبان نمائندوں کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں اسلامی شریعت کی تعریف حنفی مسلک کے مطابق کی جائے گی جو کہ چار سنی مسالک میں سے ایک ہے جس میں شیعہ برادری کے شرعی قوانین شامل نہیں ہوں گے جو افغان آئین کے تحت دیے گئے ہیں۔ طالبان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مذاکرات میں اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن بیان میں کہا گیا کہ ‘ہمسایہ ممالک کو کابل حکومت کے لہجے میں بات کرنے کا حق نہیں ہے۔ افغان جانتے ہیں کہ مذاکرات کیسے کرنے ہیں اور وہ آئین اور مذاکرات کے اصولوں سے واقف ہیں۔’ طالبان کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘اقلیت، اکثریت، زبان، شریعت، قوانین، مذاکراتی طریقہ کار اور باقی تمام مسائل افغانوں کے آپسی معاملات ہیں۔ ہمسایہ ممالک کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو بظاہر تعاون کے عکاس ہیں لیکن یہ اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہیں۔’واضح رہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں طالبان اور ایران کے درمیان رابطہ قائم رہا ہے اور طالبان وفد نے کئی بار تہران کا دورہ بھی کیا ہے۔ جون میں ایران کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی محمد ابراہیم تہرانین فرد نے طالبان کے مذاکراتی وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات بھی کی تھی۔ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان گران ہیواد نے عرب خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغان حکومت افغان امن عمل کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی موقف کو سراہتی ہے۔’ لیکن افغان حکومت کے سابقہ مشیر طورق فرہادی کے مطابق ایران افغان امن عمل کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ فرہادی نے عرب خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘مذاکرات کے دوران دونوں اطراف آئین پر بھی بات کریں گی۔ در حقیقت افغان نیشنل ری کنسلیشن کونسل کے چئیرمین عبداللہ عبداللہ بھی اس امکان کا اعتراف کر چکے ہیں۔’ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ مذاکرات تمام افغانوں بشمول طالبان کے لیے ایک موقع ہیں کہ وہ پر امن طور پر آگے بڑھ سکیں۔ ایران کی جانب سے ایسے بیانات افغان امن عمل میں غیر ضروری مداخلت ہیں۔’