لاہور : امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا نے دعوی کیا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستان میں افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے قریبی ذرائع مُلا عمر کی ہلاکت کی اطلاعات کو مسترد کر رہے ہیں۔ افغان طالبان نے مُلا عمر کی ہلاکت کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے امیر زندہ ہیں۔ وائس آف امریکا کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ مُلا عمر کی ہلاکت کی خبریں محض افواہیں ہیں۔ مُلا عمر زندہ ہیں اور اس وقت گوشہ نشین ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی مُلا عمر کی ہلاکت کی متعدد بار خبریں آ چکی ہیں۔
واضع رہے کہ اس سے قبل برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے افغان حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ افغان طالبان کے سربراہ مُلا عمر کا انتقال ہو گیا ہے۔ بی بی سی کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق طالبان رہنما ملا عمر دو یا تین برس پہلے ہلاک ہو گئے تھے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے مُلا عمر کے زندہ یا ہلاک کے حوالے سے کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ 2001ء میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد سے ملا عمر منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ امریکی حکام نے ملا عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہوئی ہے۔
طالبان کی جانب سے جاری ہونے والی سوانح عمری کے مطابق طالبان کے امیر مُلا عمر 1960ء میں صوبے قندھار کے ضلع خاكریز کے چاہِ ہمت نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ سوویت فوجوں کے افغانستان پر حملے کے بعد مُلا عمر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر جہادی بن گئے تھے۔ 1983ء سے 1991ء کے درمیان فوجی کارروائیوں میں روسی فوجیوں سے لڑتے ہوئے مُلا عمر چار بار زخمی ہوئے اور ان کی دائیں آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد 1996ء میں مُلا عمر کو ’امیر المومنین’ کا خطاب دیا گیا تھا۔