لاہور: افغان خواتین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا نہ کرنے کی اپیل کر دی۔ ان خواتین نے صدر ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں افغانستان میں طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ کر نہ جائیں۔
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اگر کسی معاہدے کے تحت امریکی فوجی انخلاء کے بعد امریکا نے اقتدار طالبان کو سونپ دیا تو ان افغان خواتین کو ڈر ہے کہ اُن کے حقوق سلب کر لیے جائیں گے۔ افغانستان میں اپیل کورٹ کی خاتون جج انیسہ رسولی گزشتہ دو برس سے دھمکیوں اور چیلنجز کا سامنا کررہی ہیں۔ دو برس قبل جب انیسہ رسولی کو افغانستان میں سپریم کورٹ پر پہلی خاتون جج بننے کے لیے نام زد کیا گیا تھا تو پارلیمان نے خاتون ہونے کی بنیاد پران کی تقرری کو مسترد کر دیا تھا۔ امریکی فوجی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ افغان فوج کی تعداد 314,000 جبکہ طالبان کی تعداد 25,000 سے 60,000 پر مشتمل ہے۔ دوسری جانب افغان فوجی ذرائع اپنی تعداد تقریباً دو لاکھ بتاتے ہیں اور طالبان کی تعداد اسّی ہزار بتاتے ہیں۔ افغان فوجی حکام یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی فوج کا ایک تہائی حصہ ’خیالی‘ فوجیوں پر مشتمل ہے، جنکی تنخواہوں سے وار لارڈز کی جیبیں گرم ہوتی ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ نے امریکی امداد کے استعمال اور اس سے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔امریکی ترقیاتی ادارے یو ایس ایڈ کے ایک منصوبے کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کا مقصدِ وحید خواتین کی فلاح و بہبود ہے۔ اس کا نام ’فروغ’ رکھا گیا اور اس کی ابتدائی لاگت 280 ملین ڈالر لگائی گئی تھی۔ اس کے ذریعے 75000 خواتین کو روزگار۔ ہنرمند بنانے اور کاروبار شروع کرنے کے مواقع مہیا کرنا تھا۔ تین سال کی کارکردگی کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ بمشکل 55 خواتین نے استفادہ کیا ہے اور یہ تعداد بھی مبالغہ آمیز لگتی ہے۔ یہ نتائج اس رپورٹ میں سامنے آئے ہیں جو امریکی کانگریس کے مقرر کردہ انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیر نو جان سوپکو نے مرتب کی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس پروگرام کیلئے مختص رقم کا زیادہ حصہ انتظامی اخراجات اور امریکی ٹھیکیداروں کو جاتی ہیں۔ سوپکو نے اس طرح کے کئی منصوبوں پر شدید تنقید کی ہے اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کو ٹیکس گزاروں کی رقم کا زیاں قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ منصوبے کو فراہم کی جانی والی 89 ملین ڈالر میں سے 18 فیصد اخراجات تین ٹھیکیداروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے اور انتظامی امور پر خرچ ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘یہ تکبر اور دروغ گوئی کی کلاسیکل مثال ہے۔ راج شاہ اور اس کے ساتھیوں نے اس منصوبے کی نمائش میں مبالغہ آرائی سے کام لیا اور ٹیکس گزاروں، امریکی اور افغان عوام سے جھوٹ بولا کہ ہم اس منصوبے سے کیا حاصل کرسکتے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہتکبر یہ تھا کہ وہ ایک ایسے موقع پر افغان عوام سے بڑے بڑے وعدے کر رہے تھے جبکہ افغان معیشت ڈوب رہی تہی۔ میری نظر میں اس ترقیاتی عمل میں یہ پہلی اور بنیادی خطا ہے’’۔ اس سارے تناظر میں آج امریکی سوچ بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس کی امن کی خواہش آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ جنرل نکلسن نے الوداعی خطاب میں امن کی پرزور اپیل کی ہے،گو وہ پاکستان کو امن کا مخالف سمجھتے رہے ہیں