تحریر : ساجد حسین شاہ
1979 میں جب روس نے اپنی ایک لاکھ کے لگ بھگ افواج افغانستان میں داخل کی تو انکا خیال تھا کہ بڑی آ سانی سے افغانستان پر قابض ہو جائیں گے تا ہم افغا نی عوام نے بھرپور مزاہمت کی ،کیو نکہ افغانی عوام بڑی جنگجو واقع ہو ئی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی بیرونی طا قت نے اپنی حکو مت افغانستان پر مسلط کر نا چا ہی تو اسے ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ۔بلا شبہ افغانی عوام کو کنٹرول کر نا نا ممکن سا عمل ہے ۔برطانیہ جب بر صغیر پاک و ہند پر قا بض ہوا تو تین بار کوشش کے باوجود بھی افغانستان پر قبضہ جمانے میں ناکام رہا۔ روس نے تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجا ئے اپنی بر با دی مول لی اور ایسی قوم پر جنگ مسلط کر دی جو بعد میں اسی کے لیے گلے کا پھندا ثا بت ہو ئی۔ جنرل ضیاء الحق نے اس وقت افغا نی مہا جروں کو پناہدی اور دنیا پر زور ڈالا کہ روسی فوج کو افغانستان سے بر خاست کیا جا ئے امریکہ نے اس مؤقف کی خوب حمایت کی اور پاکستان کی ہر ممکنہ امداد کی یقین دہا نی کروائی۔ امریکہ نے براستہ پا کستان افغانستان میں لڑنے والے مجا ہدین کو اسلحہ اور امداد پہنچائی اور اسی طرح ان تمام کا وشوں کے نتا ئج میں بلا آ خر روسی افواج ذلیل و خوار ہو کر چل دی،روسی افواج کے انخلاء کے باوجود افغانستان جنگی میدان کی ہی صورت اختیا کیے رہا۔ مجا ہدین کے مختلف گروہ آ پس میں لڑنے لگے اور بلا آخر طالبان نے فتح کا جھنڈا گھاڑ دیا۔
طالبان کی حکومت کو پاکستان نے فی الفور تسلیم کر لیا کیو نکہ طالبان کو ہمیشہ سے امر یکہ اور پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔پھر جب نائن الیون کا حادثہ پیش آیا تو اس نے دنیا کی سو چ ہی بدل دی ،امریکہ نے بنا کسی شواہد کے افغانستان کو القا عدہ کا گڑھ قرار دے کر حملے کی ٹھان لی۔تب پا کستانی حکومت پر قا بض پر ویز مشرف نے بھی امریکن آ قا ئوں کے آ گے سر خم کر تے ہو ئے اپنے ملک کے فو جی اڈے امریکن آ رمی کے سپرد کر دیے جب امریکہ کی تسلی نہ ہو ئی تو حکم صا در ہوا کہ جن قبا ئلی علا قوں میں افغان عوام کی تحریک مزاہمت میں تعا ون کیا جا رہا ہے وہا ں فوجی کا روائی کی جا ئے پا کستانی بے بس حکمرانوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور امریکہ کی اس جنگ میں ناچاہتے ہوئے بھی خود کو دھکیل دیا۔ جسکا خمیا زہ آ ج بھی ہم بھگت رہے ہیں اور نہ جا نے کب تک بھگتنا پڑے گا۔ کئی سال سے دنیا کے ترقی یا فتہ تر ین ممالک کی افواج جنگ کے باوجود اپنا اثر ورسوخ صحیح معنوں میں حا صل کر نے میں نا کام رہیں تو اپنا غم و غصہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کی شکل میں نکالنے لگیں جنہوں نے موت کا تحفہ خوب تقسیم کیا۔ امر یکن ذرائع کے مطا بق بھی اس مو ت کے کھیل میں بچوں اور عورتوں سمیت اٹھا نوے فیصد عام پاکستانی شہری ان ڈرون حملوں کا شکار ہو ئے۔
وقتی طور پر تو حکومت وقت نے مزاہمتی قراردادوں کے ڈرامے تو خوب رچائے مگر ویکی لیگس نے ان عوامی نمائندوں پر مشتمل منتخب حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کا بھا نڈا پھوڑ دیا جب امریکی حکام کے سا منے کی گئی یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ ڈرون حملوں میں عام پاکستانیوں کی جانی و مالی نقصان پر امریکہ کو تشویش ہو تو ہو مگر ہمیں کو ئی پرواہ نہیں یہی وہ سیا سی رہنما ہیں جو آج بھی انتہا ئی ڈھٹا ئی کے سا تھ ٹی وی چینلز پر آ کر اپنی حکومت کی تعریفوں کے پل باند ھتے ہیں۔ بہر حال امریکہ وہ واحد سپر پا ور نہیں جسے افغانستان میں ذلت کا سامنا کرنا پڑا اس سے پہلے برطانیہ اور روس جیسی سپر پاورز شکست خوردہ ہو ئیں۔ امریکن فوج کے بڑے بڑے حملوں کے باوجود بھی سیاسی اپروچ آ ج بھی غیر یقینی اور کمزوریوں کا شکا ر دکھائی دیتی ہے۔ بہت سے ایسے علا قے افغانستان میں موجود ہیں جہاں فو جی کا روائیوں کے بعد طالبان تو وہا ں سے چلے گئے مگر کوئی مقامی انتظامیاں موجود نہیں ہے جو علاقے کے نظم و نسق سنبھال سکے۔ ایک مغر بی ذرائع کے مطابق افغانستان کے چونتیس میں سے تینتیس صوبوں میں افغان عوام کی مزاحمتی تحریک کا کنٹرول ہے۔ اس حو لے سے اے ایف پی کی ایک رپورٹ ملا حظہ فرمائیں جسمیں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ بیشتر صو بوں میں گورنر، ججوں اور پو لیس سر براہ پر مشتمل طالبان کا اپنا متوازی نظا م حکومت قا ئم ہے جو چو ریوں ،پڑو سیوں کے جھگڑے اور شا دی بیاہ کے تنا زعات تک تمام معاملات میں عمل دخل رکھتا ہے۔ کا بل میں نیٹو ملٹری اہلکار کا کہنا ہے کہ چو نتیس میں سے تینتیس صو بوں میں طالبان کی شیڈو گو رنمنٹ مو جو د ہے۔
ایسی صو رتحال میں امریکن جو چا ہیں دعوے کر یں مگر حقیقت بلکل اس کے بر عکس ہے اس لیے اس بات میں کو ئی بعید نہیں کہ نیٹو فو رسسز با عزت طور پر افغا نستان سے نکلنے کی کا وشوں میں مصروف ہیں تاہم اس بات نے سب کو چو نکا دیا کہ اوبا مہ انتظامیہ کے نئے پینٹا گون چیف کا کہنا ہے کہ امریکہ طا لبان کی پیش قدمیوں کی وجہ سے فو جی انخلاء کی ٹا ئم لا ئن تبدیل کر نے پر سنجید گی سے غور و فکر کر رہا ہے امر یکن جس مقصد کے حصول کے لیے افغانستان میں آ ئے تھے اسمیں تو بری طر ح نا کام ہو ئے کیونکہ نا تو افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کر سکے اور نہ ہی امن قائم ہو سکا جبکہ افغان حکومت کو بھی طا لبان سے مذاکرات کر نے پڑے۔ ان مذاکرات کی حما یت امریکہ نے بھی کی اور پا کستانی نے بھی ہر ممکن امداد کی پیش کش کی۔ اور یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ ان مذاکرات سے افغانستان میں امن قا ئم ہو سکے گا مگر اس کے لیے انتہا ئی اہم تھا کہ امریکہ سمیت تمام نیٹو افواج کے انخلاء کو یقینی بنا یا جا ئے تا کہ افغانستان کے وہ لوگ جو مزاحمتی تحریک کا حصہ ہیں انکا اعتماد اپنے لوگوں پر بحال ہو سکے۔ جب تک یہ بیرونی ہا تھ ملوث رہیں گے افغانستان میں امن قائم ہونا نا ممکن ہے اور جب تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہو گا تب تلک جنو بی ایشیا ہی کیا پوری دنیا میں بھی امن قا ئم کرنے کی راہ ہموار نہیں ہو سکے گی۔ اس امن کو قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود وہی لوگ بن رہے ہیں جو امن کے علم لے کر اس خطے میں دا خل ہو ئے تھے۔ اب وہ کون سا نیا کھیل رچا نے والے ہیں اس کے اثرات تو شاید کچھ دیر بعد ہی نمودار ہوں گے مگر اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہو نی چاہیے کہ افغانستان میں سے نیٹو فو رسسز کا انخلاء اپنے ٹا ئم لائن کے مطا بق ہونے میں ہی سب کی بہتری ہے۔
تحریر : ساجد حسین شاہ ریاض، سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631