کابل: افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک مرتبہ پھر الزام لگایا ہے کہ افغانستان کو پاکستان کی غیر اعلانیہ جارحانہ جنگ کا سامنا ہے اور گزشتہ 2 برسوں کے دوران 11 ہزار غیر ملکی جنگجو داعش میں شمولیت کے لیے افغانستان آچکے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل میں جاری بین الاقوامی امن کانفرنس میں پاکستان سمیت 25 ملکوں کے نمائندے شریک ہیں، پاکستان کی جانب سے اجلاس میں تسنیم اسلم اور دفتر خارجہ میں ڈی جی افغانستان ڈیسک منصور احمد خان پر مشتمل 2 رکنی وفد نمائندگی کررہا ہے۔ کانفرنس کا مقصد افغانستان میں قائم امن کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔ دو روزہ کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان دہشت گردی کے خلاف ہراول محاذ پر موجود ہے۔ اگر طالبان امن مذاکرات میں شمولیت میں دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ انہیں دفتر کھولنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں تاہم یہ ان کے لیے آخری موقع ہوگا۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ 31 مئی کو کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 300 افراد زخمی ہوئے۔ افغانستان دہشت گردی سے جنگ کے لیے پرعزم ہے تاہم وہ تمام پڑوسیوں کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ اشرف غنی نے الزام تراشی کرتے ہوئے کہ افغانستان کو پاکستان کی غیر اعلانیہ جارحانہ جنگ کا سامنا ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ پاکستان ہم سے کیا چاہتا ہے۔ پچھلے دو سال میں 11 ہزار غیر ملکی جنگجو داعش میں شمولیت کے لیے افغانستان آچکے ہیں۔ ایک جانب بین الاقوامی کانفرنس جاری ہے تو دوسری جانب دارالحکومت کابل کے انتہائی سخت سیکیورٹی والے گرین زون میں واقع بھارتی سفیر من پریت ووہرا کی رہائش گاہ پر راکٹ حملہ کیا گیا ہے، راکٹ ان کے رہائشی کمپاؤنڈ کے اندر ٹینس کورٹ میں گرا تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز افغان وزارت داخلہ نے الزام لگایا کہ کابل ٹرک حملے میں استعمال ہونے والا بارود پاکستان سے آیا تھا۔